روح کی واپسی اور ایصال ثواب (3)
ماہرین بشریات اس بات پر متفق ہیں کہ اپنی شخصیت اور روحوں کے عمومی عقیدے کے بارے میں انسان کے ادراک کا محرک خواب ہیں۔ قدیم انسان کے لیے سایہ جسم کا پراسرار حصہ تھا۔ یہ ظاہر ہوتا تھا, چپکے سے غائب ہوجاتا تھا۔ ساکت پانیوں والی جھیل میں یہ بالکل انسان کی شبیہہ ہوتا تھا۔ انسان کے لیے سایہ کا غائب ہوجانا پریشان کن تھا۔ وہ اسے ہستی ثانی قرار دیتا تھا یعنی یہ جسم اور روح کا امتزاج ہے۔ انسان نے موت کی تعبیر یہ کی کہ جب سایہ مکمل طور پر جسم سے دور چلا جائے تو انسان کی موت واقع ہوجاتی ہے۔
اسی طرح سے یہ عقیدہ تھا کہ جب انسان سو جاتا یے تو روح جسم سے نکل کر باہر گھومنے پھرنے چلی جاتی یے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ روح پلٹ کر واپس نہیں آتی۔ اور انسان صبح کو مردہ ملتا ہے۔
قدیم ارواح پرستوں کے مطابق ہر شے میں ایک روح موجود تھی مثلا ہر درخت ایک روح کا حامل تھا اور اس پر دیوتاؤں کا مسکن بھی ہوتا تھا۔ ہندوستان کے درواڑیوں نے زمانوں تک درختوں کو تعظیم دی۔ بدھ مت ، اور جدید ہندو مت کے شجری مسالک اسی قدیم نظریے کا ایک تسلسل کہے جاسکتے ہیں۔
انسان نے جب اپنے اعزہ واقارب کو خواب میں دیکھا تو خیال پیدا ہوا کہ یہ کسی نہ کسی صورت زندہ ہیں اور ہوسکتا ہے کہ انہیں سامان زندگی کی ضرورت پڑتی ہوگی۔ اس خیال کی بناء پر مردوں کے ساتھ ان کا سامان بھی دفنایا جانے لگا۔
سامان کے مردے کے ساتھ دفن کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مردہ کہیں زندوں کو سامان کے لیے پریشان نہ کرے۔
انسان خالی ہاتھ آیا ہے اور خالی ہاتھ دنیا سے جائے گا۔ یہ مقولہ میرے خیال میں بہت بعد کی ایجاد یے کیونکہ قدیم زمانے کا انسان مرنے کے بعد اپنا سامان اپنی قبر میں ساتھ لے جاتا تھا۔
(جاری۔۔۔۔)
ابو جون رضا