اب یہ مت سوچیے گا کہ یہ کسی ناول کا نام ہوسکتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جس مضمون پر لکھنے کا خیال ذہن میں آیا ہے اس کا تعلق روح سے ہے۔
ہمارے یہاں لوگ جذباتی و مقدس مسائل و شخصیات کے اسیر ہیں۔ہماری سوسائٹی زمانے سے تنگ کنویں میں قید ہے۔ اور ہمارے ذہنوں تک افکار کی تازہ ہوائیں آنے سے دانستہ روکا جاتا یے۔
خدا کیا ہے؟ روح کیا ہے؟ مذہب کیا یے؟ سو لوگوں سے یہ سوالات پوچھیے ۔ سب سے الگ الگ جواب ملیں گے جن کو سن کر آپ کو اندازہ ہوگا کہ ہماری عوام کو کتنا عقلی ایکسپوزر ملا ہے۔
مرنے کے بعد انسانی روح کے دنیا سے تعلق اور اس کو ایصال ثواب پہنچانے کے معاملے سے ہرشخص کو واسطہ پڑتا ہے ۔ ہر مسلک کے اس حوالے سے اپنے اپنے خیالات اور طریقہ کار ہیں۔ لیکن قرآن کریم کیا ہدایت دیتا یے اور رسول اکرم کا اسوہ کیا رہا ہے، اس طرف توجہ دینے کی کسی کو توفیق نہیں ملتی۔
انسان کی معلوم تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے انسانوں کی زندگی ان کے بادشاہوں کے گرد گھومتی تھی۔ اکثر قبیلوں کی بزرگ شخصیات ہی بادشاہ بنتی تھیں۔ اور ان کو مذہبی پروہت کا درجہ بھی حاصل ہوتا تھا۔
مصری تہزیب وہ پہلی تہذیب سمجھی جاتی ہے جس نے موت کے بعد زندگی کا نظریہ پیش کیا تھا۔
عراقی لوگوں کا عقیدہ تھا انسان دیوتا کی خدمت کے لیے پیدا ہوا ہے اور یہ بھی عقیدہ تھا کہ موت کی بعد کی زندگی صرف بادشاہ کو حاصل ہوتی ہے۔
روح پرستی کا خیال قدیم انسان کو موت اور خوابوں کے تجربات نے دیا۔ کچھ باتیں ایسی تھیں جنہوں نے انسان کو پریشان کیا جن میں سے ایک یہ تھی کہ جب انسان مرجاتا ہے تو زندگی کہاں چلی جاتی ہے؟ کیا ایسی چیز ہے جس کے نکل جانے کی وجہ سے ایک صحت مند انسان اچانک مردہ ہوگیا؟
دوسری بات یہ تھی کہ ایک مرا ہوا انسان خواب میں کیسے آتا یے؟ یہیں سے روح پرستی کے عقیدے نے جنم لیا۔
سایہ یا انعکاس کو روح کا حصہ سمجھا جاتا تھا اور یہ عقیدہ تھا کہ جس چیز پر سایہ پڑ رہا ہو اس کا ٹوٹ جانا روح کے لیے نقصان دہ ہے اسی لیے شیشے کا اچانک سے تڑخ جانا یا ہاتھ سے گر کر ٹوٹ جانا بدقسمتی کی علامت سمجھا جاتا تھا
(جاری…)
ابو جون رضا
بہت خوب اس موضوع پر قلم اٹھانا بہت ضروری تھا وہ اس لئے کہ ہمارے ہاں بہت سی ایسی توہمات و رسومات موجود ہیں جن کو ہم اسلام کا حکم سمجھ بیٹھتے ہیں حالانکہ اسلام سے اس کا دور دور تک واسطہ نہیں ہوتا