میں کراچی کا رہائشی ہوں۔ ایک تیز رفتار شہر جس میں رہنے والے ہمیشہ جلدی میں رہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ شہر بہت پیسہ کما کر ملک کو دیتا ہے۔
آج کل یہ شہر بدحالی کا بدترین نمونہ پیش کر رہا ہے۔ اگر زمین بیل کے دو سینگوں پر ٹھہری ہوئی ہے تو یہ ملک خلا میں اور یہ شہر گٹر پر قائم ہے۔ مین ہولز کے ڈھکن غائب ہیں۔ جا بجا بارش کا پانی کھڑا ہے۔ پتا ہی نہیں چلتا کہ مین ہول کہاں کھلا ہے اور کہاں بڑا سا گڑھا پانی سے بھرا ہوا موجود ہے۔ لوگ ان گڑھوں میں اور نالوں میں گر جاتے ہیں۔ اگر قسمت اچھی ہوتی ہے تو بچ جاتے ہیں ورنہ ان کا انتم سنسکار کرنے کے لیے گھر والوں کو لاش بھی مشکل سے ملتی یے۔
لوگ کہتے ہیں آپ اس شہر کا یورپ سےکیسے تقابل کرسکتے ہیں؟ میں کہتا ہوں کہ یورپ ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ وہاں بھی گٹر کا پانی گلیوں میں بہتا تھا۔ تاریک گلیاں اور گندے شہر تھے۔ پھر ان لوگوں نے سوچا کہ ہمیں پہلے خود کو اور پھر اس شہر کو بدلنا ہوگا۔ کچھ سخت فیصلے لینے ہونگے پھر کہیں جا کر ہماری آنے والی نسلیں سکون سے زندگی بسر کریں گی۔
میرا شہر بہت مذہبی لوگوں کا شہر ہے۔ یہاں صبح سے شام تک واٹس اپ اور فیس بک پر مذہبی اذکار، اصلاحی بیان، مقدس لوگوں کے اقوال، اکابر کی عبادات اور تقوی کے قصے موبائل پر فارورڈ ہوتے رہتے ہیں۔ اس کے باوجود شہر کا یہ حال ہے کہ ہر جگہ کوڑا پڑا ہے۔ لوگ ڈسٹ بن کے نام سے واقف نہیں ہیں۔ روڈ پر کچرا پھینکنا ان کا عام وطیرہ ہے۔
یہاں رہنے والے لوگ جب یورپ امریکا جاتے ہیں تو صفائی ستھرائی دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں۔ ان کو لگتا یے کہ وہاں کے لوگ جنت میں رہتے ہیں ۔ پھر واپس آکر مغرب کے قصے ایسے سناتے ہیں جیسے یورپ کی تعمیر میں ان کا بہت بڑا کردار ہو۔
سگنل توڑنا، کچرا باہر پھینکنا، رانگ وے گاڑی چلانا، گندی غلیظ زبان استعمال کرنا اور پھر سوشل میڈیا پر دن و رات کے مذہبی اذکار ایک دوسرے کو بھیجنا اس قوم کے دوغلے پن کی علامت ہے۔
اس شہر میں مختلف طریقوں سے لوگ خدا کو راضی کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ کبھی ربیع الاول کا مہینہ آتا یے تو فرشتوں کی نقالی میں گندے غلیظ علاقوں میں بھی جلوس نکلتے ہیں اور زوردار آواز میں نعتیں پڑھی جاتی ہیں۔ کبھی محرم کا مہینہ آتا ہے تو کالے کپڑے پہنے لوگ دن و رات جلوس نکالتے نظر آتے ہیں۔ راستوں میں سبیلوں پر کان پھاڑ دینے والی آواز میں نوحے بجتے نظر آتے ہیں۔
کبھی عید الضحیٰ پر جانوروں کی آلائشوں کے ڈھیر خدا کی خوشنودی کی تلاش کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔
پھر بھی پتا نہیں کیوں خدا راضی نہیں ہوتا؟ یہاں تو کوئی اوتار بھی نہیں آتا جو کچھ بہتری لا سکے۔
کیا پتا آیا ہو اور گٹر ابلتے دیکھ کر ناک پر رومال رکھ کر بھاگ گیا ہو اور اس نے ان آوازوں پر کان نہ دھرے ہوں جو برسوں سے العجل العجل ، لبیک لبیک چلا رہی ہیں۔
جس شہر میں لوگوں کے بچے گٹر میں گر کر بہہ جائیں ، جہاں کسی کی فیملی بارش کے پانی کی وجہ سے زندگی موت کی جنگ لڑے، کرنٹ لگنے سے لوگ روڈ پر مرے پڑے ہوں، اس شہر میں مذہبی چورن نہیں بلکہ عقل تقسیم کرنے کی ضرورت ہے۔
لیکن کیا کریں کہ اس شہر کے رہنے والوں کی دنیا روٹی ہے اور مذہب ان کا چورن ہے۔ جب روٹی ٹھونس ٹھونس کر کھا لی جاتی ہے تو پھر اس چورن کی ضرورت پڑتی ہے۔
رہے نام اللہ کا۔
اجالتی نہیں اب مجھ کو کوئی تاریکی
سنوارتا نہیں اب کوئی حادثہ مجھ کو
ابو جون رضا