ربا فری بنکنگ شرکت اور مضاربت کے اصولوں پر کام کرتی ہے۔ اسلامک بنکس میں کرنٹ اکاؤنٹ قرض کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کنویشنل بنکنگ میں کرنٹ اکاؤنٹ پر پرافٹ نہیں دیا جاتا۔ اسی طرح سے اسلامک بنکنگ میں بھی کرنٹ اکاؤنٹ پر پرافٹ نہیں دیا جاتا۔ لیکن ربا فری بنک میں کلائنٹ کے پیسے کو شرعی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے تجارت میں لگایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ کسی بھی قسم کی رعایت کرنٹ اکاؤنٹ میں پیسہ رکھنے والوں کو نہیں دی جاتی چاہے وہ کتنا بھی پیسہ بنک میں رکھوائیں۔
مثال کے طور پر کوئی کمپنی اگر ایک ارب روپے کرنٹ اکاؤنٹ میں رکھے اور بدلے میں صرف یہ تقاضہ کرے کہ چیک بک کے چارجز معاف کردیے جائیں تو یہ ممکن نہیں ہیں جب تک ایک سو روپے سے اکاؤنٹ کھولنے والے کو بھی یہی سہولت حاصل نہ ہو۔ کیونکہ ہر وہ قرض جو نفع لیکر آئے، ربا میں داخل ہے۔
یہاں پر قرض کی بنیاد پر پیسہ لیا گیا اور بدلے میں صرف ایک بڑی کمپنی کو چیک بک چارجز معاف کردیے تو یہ جائز نہیں ہے۔
یہ بہت باریک سی لائن ہے مگر ربا فری بنکنگ میں اس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
اس کے مقابلے میں سیونگ اکاؤنٹ میں جو شخص پیسہ رکھواتا ہے وہ نفع میں حصہ دار ہوتا ہے۔ پیسہ رکھوانے والا رب المال ہوتا یے۔ اور وہ ایک طرح کا سلیپنگ پاٹنر ہوتا ہے۔ بنک اپنی مہارت کو استعمال کرتا ہے اور پیسہ ایسی جگہ انویسٹ کرتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ منافع کی توقع ہو مگر وہ شرعی اصولوں کے مطابق ہو۔
کنویشنل بنکنگ میں ایک لائسنس ہولڈر شراب خانہ چلانے والی کمپنی نہ صرف اپنا اکاؤنٹ کھول سکتی ہے بلکہ ضرورت پڑنے پر پیسہ قرض بھی لے سکتی ہے۔ جبکہ یہ دونوں باتیں ربا فری بنکنگ میں ممکن نہیں ہیں۔
اسی طرح سے اگر کوئی شخص چاہے کہ ربا فری بنک سے کسی ضرورت کے لیے پیسہ ادھار لے اورجب واپس کرے تو سو روپے کے بدلے ایک سو دس روپے واپس کردے تو یہ ممکن نہیں ہے۔
اس کےبجائے اسلامک بنک اس کے ساتھ شرکت کا معاملہ کرسکتا ہے ۔ یعنی کسی کاروبار کے لیے پیسہ دے اور وہ شخص اس پیسہ کو کاروبار میں لگائے اور اپنی مہارت کو بروئے کار لائے اور پھر جو منافع حاصل ہو اس کو پہلے سے طے شدہ منافع کے تحت آپس میں بانٹ لیا جائے۔
ربا فری بنکنگ کی اصل بھی شراکت داری ہے۔ لیکن فی زمانہ یہ معاملہ اسلامک بنکس صرف مارکیٹ میں جانے پہچانے لوگوں یا کمپنی کے ساتھ کرتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں اگر کوئی شخص کسی سے پیسہ لے تو سب سے پہلے یہ سوال پیدا ہوتا یے کہ وہ واپس بھی کرے گا یا نہیں؟
اگر کرپشن فری معاشرہ ہو اور لوگ بھی ایماندارہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ شرکت داری پر معاملات عام لوگوں کے ساتھ بھی کیے جائیں۔
ربا فری بنکس کو اپنے کسٹمر کے پیسے کو بھی بہت خیال سے انویسٹ کرنا ہے اور ساتھ میں منافع بھی کمانا ہے اس وجہ سے وہ عام لوگوں کی خواہشات پر چلتے ہوئے دھڑا دھڑ شراکت داری کے معاہدے ہر کسی کے ساتھ نہیں کرسکتا۔
جاری۔۔۔
Bhot zabardst lekha apny mashallah