مالک بن نبی صاحب الجزائر کے ایک فلسفی گزرے ہیں۔ جس زمانے میں پاکستان آزاد ہوا اس وقت الجزائر میں آزادی کی جنگ کا آغاز ہورہا تھا۔ اس وقت مالک صاحب نے ایک کتاب لکھی جس میں اس بات پر غور کیا گیا تھا کہ انسانی معاشرہ کس طرح سے استعمار کے چنگل میں پھنس جاتا ہے۔ ان کے مطابق علم و فکر سے منہ موڑنے والے معاشرے سامراجیت کا آسان ہدف بنتے ہیں۔
1965 میں الجزائر نے فرانس سے آزادی حاصل کی۔ مالک صاحب کے افکار اتنے مقبول ہوئے کہ ان کی فکر پر مزید لوگوں نے کام کیا اور الجزائر میں مزید فلاسفر پیدا ہوئے۔
ہم 1947 میں آزاد ہوگئے مگر آج بھی استعمار کے جبڑوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ بولو تو ہم بولتے ہیں۔ وہ کہتا ہے بھونکو تو ہم ایک دوسرے پر بھونکنے لگتے ہیں۔
خرابی کی اصل جڑ ہمارے اندر پیوست ہے۔ ہم نے فکری سوچ کو جلاء نہیں دی ہے۔ ہم نے اپنے اندر اٹھنے والی آوازوں کو دبایا ہے اور لوگوں کو حقارت سے دیکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں جس کنویں میں ہم گردش کرتے ہیں دنیا اتنی ہی ہے۔ جتنا ہم جانتے ہیں اتنا کوئی نہیں جانتا۔
ہم بیماری کی تشخیص نہیں کرپائے۔ بلکہ بیماری سے سرے سے انکاری ہیں۔ ہم وہ محکوم ذہن رکھتے ہیں جو باہر نے نہیں اندر سے کنڑول ہوتا ہے۔
دنیا کے دوسرے ممالک جیسی لاطینی امریکہ ، افریقہ اور یہاں تک کہ بھارت میں استعماریت اور سامراجیت کے نفسیاتی اثرات کا سنجیدہ مطالعہ جاری ہے۔
لفظ اور آواز دونوں کھو گئے
مجھ سے حق چھینا گیا ہے بات کا
ابو جون رضا