قرآن عزیز میں ذوالکفل کا ذکر دو سورتوں ” انبیاء “ اور ” ص “ میں کیا گیا ہے اور دونوں میں صرف نام مذکور ہے اور مجمل و مفصل کسی قسم کے حالات کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔
” اور اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل سب صبر کرنے والے تھے۔ ہم نے انھیں اپنی رحمت کے سایہ میں لے لیا۔ یقیناً وہ نیک بندوں میں سے تھے”
(سورہ انبیاء)
“اور یاد کرو اسماعیل ‘ الیسع اور ذوالکفل کو اور یہ سب نیکوکاروں میں سے تھے”
(سورہ ص)
یہ درست بات ہے کہ حضرت ذوالکفل کے بارے میں قران میں تذکرہ موجود نہیں ہے ۔ تاریخ الانبیاء وغیرہ میں یا نجم الحسن کراروی صاحب کی کتاب تاریخ اسلام میں ان کا ذکر ملتا ہے ۔ کچھ روایات بیان کی جاتی ہیں کہ وہ غصہ کو پی جانے والے تھے ۔
میں نے بچپن میں اس حوالے سے روایات پڑھی تھیں۔ آج بھی یاد ہیں۔ مگر یہ روایات پایہ سند کے اعتبار سے ساقط ہیں ۔
حضرت ذوالکفل کا ذکر دونوں بار حضرت ایّوب کے قصّے کے بعد آیا ہے اور شاید اِسی لیے بعض مفسرّین نے اُنھیں حضرت ایّوب کا فرزند بتایا ہے اور اُن کا نام،’’ بشر‘‘ لکھا، یعنی’’بشر بن ایّوب‘‘ جب کہ ’’ذوالکفل‘‘ اُن کا لقب تھا۔
حضرت شاہ عبدالقادر فرماتے ہیں کہ ذوالکفل، حضرت ایّوب کے بیٹے تھے۔ تاہم، بیش تر مفسرّین کے مطابق، آپ اللہ کے نبی تھے جو بنی اسرائیل میں مبعوث کیے گئے۔ شروع میں حضرت الیسع کے خلیفہ تھے، بعد میں نبوّت سے سرفراز فرمائے گئے۔
قرآنِ کریم میں عمومی طور پر سابقہ انبیائے کرام کے وہی حالات و واقعات بیان کیے گئے ہیں، جن میں کوئی نصیحت، سبق یا کوئی پیغام ہو اور جس سے اہلِ عقل و دانش عبرت حاصل کریں۔ جیسا کہ سورۂ ھود میں ارشادِ باری ہے
’’اور (اے پیغمبر) سابقہ انبیاءؑ کے حالات ہم اس لیے بیان کرتے ہیں تاکہ تمہارے دل کو تسلّی ہو اور مومنوں کے لیے نصیحت و عبرت ہو۔‘‘
ایک اندازہ ہے کہ ان کے دور میں کوئی ایسا خاص واقعہ نہیں ہوا کہ جس کی وجہ سے قران کریم بطور خاص ان کا ذکر کرتا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا صبر و حلم لوگوں میں مشہور ہو جس کی وجہ سے اس وقت کے لوگوں نے سوال کی ضرورت محسوس نہیں کی ہو۔
ایک رائے یہ ہے کہ کہ ذوالکفل حضرت حزقیل (حزقی ایل) کا لقب ہے۔ جو نبی تھے اور بنی اسرائیل کی اسیری کے زمانے میں مبعوث فرمائے گئے۔ بائبل کے مطابق جب بخت نصر نے یروشلم پر حملہ کیا، تو اُس نے وہاں کے ہزاروں یہودیوں کو قیدی بنا لیا اور اُنہیں بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر عراق لے گیا۔ جہاں دریائے خابور کے کنارے ایک نئی بستی آباد کی۔جس کا نام’’ تل ابیب‘‘ رکھا۔
وہ یہودی وہاں کئی دہائیوں تک قید رہے اور اُسی قید کے دَوران حضرت حزقی ایل کو نبوّت سے سرفراز فرمایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل میں’’ صحیفہ حزقی ایل ‘‘ تو موجود ہے۔ لیکن حضرت ذوالکفل کے سلسلے میں خاموشی ہے۔
الکفل” دو معنی “نصیب” اور “کفالت” میں استعمال ہوا ہے۔ ذوالکفل کی کنیت کے بارے میں مختلف نظریے ذکر ہوئے ہیں جو درج ذیل ہیں:
انہیں ذوالکفل کا نام دیا گیا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے بہت زیادہ اعمال اور عبادات کی وجہ سے، اپنی رحمت اور ثواب کا بہت زیادہ حصہ اس کے نصیب میں دیا تھا۔
انہیں ذوالکفل کہا گیا ہے، کیونکہ انہوں نے ستر پیغمبروں، جن کی جان کو خطرہ تھا، انکی کفالت کی، اور نجات دی تھی۔
بنی اسرائیل کی بہت زیادہ تعداد جو دشمنوں کے ہاتھوں فرار کر کے آئے تھے انہیں پناہ دی اور ان کی کفالت کی۔
انہوں نے ارادہ کیا تھا کہ جو اللہ تعالیٰ کی رضا ہے اس پر صبر کریں گے اور لوگوں کے اخلاق پر تحمل کریں گے، اس ارادے کی وجہ سے انہیں ذوالکفل کا نام دیا گیا ہے۔
(مکارم شیرازی، تفسیر نمونہ)
امام محمد باقرسے ایک روایت منقول ہے۔ جس میں آپ حضرت ذوالکفل کو بنی اسرائیل کے انبیاء میں سے کہا ہے جو حضرت سلیمان کے بعد تھے اور حضرت داؤود کی طرح لوگوں کے درمیان قضاوت کرتے تھے۔
(مجمع البیان فی تفسیر القرآن از طبرسی جلد 7)
ابو موسیٰ اشعری نے رسول اکرم سے روایت نقل کی ہے کہ ذوالکفل انبیاء میں سے نہیں تھے بلکہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کے صالح بندوں میں سے تھے۔
(طبری ، جامع البیان فی تفسیر القران، جلد 17)
آیت اللہ محمد حسین فضل اللہ صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ذوالکفل لوگوں کے درمیان قضاوت میں معروف تھے۔
(تفسیر من وحی القرآن، جلد 19)
ایک اور نظریہ یہ ہے جو سورة الانبیاء آیت 85 کی تشریح کے ذیل میں مولانا مناظر احسن گیلانی کا خیال نقل کیا گیا ہے اور مجھے اس سے کسی حد تک اتفاق ہے کہ قرآن میں ذو الکفل علیہ السلام کے نام سے جس پیغمبر کا ذکر ہوا ہے وہ دراصل گوتم بدھ تھے۔ ان کا اصل نام سدھارتا تھا۔ ”گوتم بدھ“ یا ”گو تم بدھا“ ان کا لقب تھا جو بعد میں مشہور ہوا۔
آپ ریاست ”کپل وستو“ کے ولی عہد تھے۔ چناچہ جن محققین کا خیال ہے کہ قرآن میں ذوالکفل کے نام سے گوتم بدھ ہی کا ذکر ہے ان کی دلیل یہ ہے کہ ”کفل“ دراصل ”کپل“ ہی کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ یعنی ہندی ”پ“ کی جگہ عربی کی ”ف“ نے لے لی ہے اور اس طرح گویا ذوالکفل کے معنی ہیں ”کپل ریاست والا۔“
مورخ طبری نے آپ علیہ اسلام کی عمر 75 سال تحریر کی ہے۔ 95 سال بھی کئی علمائے تاریخ نے لکھی ہے۔
عراق کے جنوب میں ایک قبر ہے جسے حضرت ذوالکفل سے منسوب کیا گیا ہے
(معجم البلدان از یاقوت حموی جلد 3)
واللہ اعلم
ابو جون رضا