قران کریم مولا علی کا امام
مولا علی اپنے بارے میں بتاتے ہیں
قَدْ اَخْلَصَ لِلّٰهِ فَاسْتَخْلَصَهٗ، فَهُوَ مِنْ مَّعَادِنِ دِیْنِهٖ، وَ اَوْتَادِ اَرْضِهٖ. قَدْ اَلْزَمَ نَفْسَهُ الْعَدْلَ، فَكَانَ اَوَّلُ عَدْلِهٖ نَفْیَ الْهَوٰی عَنْ نَّفْسِهٖ، یَصِفُ الْحَقَّ وَ یَعْمَلُ بِهٖ، لَا یَدَعُ لِلْخَیْرِ غَایَةً اِلَّاۤ اَمَّهَا، وَ لَا مَظِنَّةً اِلَّا قَصَدَهَا، قَدْ اَمْكَنَ الْكِتَابَ مِنْ زِمَامِهٖ، فَهُوَ قَآئِدُهٗ وَ اِمَامُهٗ، یَحُلُّ حَیْثُ حَلَّ ثَقَلُهٗ، وَ یَنْزِلُ حَیْثُ كَانَ مَنْزِلُهٗ.
اس نے ہر کام اللہ کیلئے کیا تو اللہ نے بھی اسے اپنا بنا لیا ہے۔ وہ دین خدا کا معدن اور اس کی زمین میں گڑی ہوئی میخ کی طرح ہے۔ اس نے اپنے لئے عدل کو لازم کر لیا ہے چنانچہ اس کے عدل کا پہلا قدم خواہشوں کو اپنے نفس سے دور رکھنا ہے۔ حق کو بیان کرتا ہے تو اس پر عمل بھی کرتا ہے۔ کوئی نیکی کی حد ایسی نہیں جس کا اس نے ارادہ نہ کیا ہو اور کوئی جگہ ایسی نہیں ہے کہ جہاں نیکی کا امکان ہو اور اس نے قصد نہ کیا ہو۔
اس نے اپنی باگ ڈور قرآن کے ہاتھوں میں دے دی ہے۔ وہی اس کا رہبر اور وہی اس کا امام ہے۔
جہاں اس کا بارِ گراں اترتا ہے وہیں اس کا سامان اترتا ہے اور جہاں اس کی منزل ہوتی ہے وہیں یہ بھی اپنا پڑاؤ ڈال دیتا ہے۔
(خطبہ 85)
ابو جون رضا