یہ کتاب جو صدیوں سے پڑھی جارہی ہے اس کے بارے میں بجا طور پر سوال کیا جاسکتا ہے کہ اس کا موضوع کیاہے؟
قران کریم میں ارشاد ہے
كِتَابٌ اَنْزَلْنَاهُ اِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِّيَدَّبَّرُوٓا اٰيَاتِهٖ وَلِيَتَذَكَّرَ اُولُو الْاَلْبَابِ (سورہ ص 29)
ایک کتاب ہے جو ہم نے آپ کی طرف نازل کی بڑی برکت والی تاکہ وہ اس کی آیتوں میں غور کریں اور عقلمند نصحیت حاصل کریں۔
انسان کے اندر اللہ نے تجسس کا مادہ رکھا ہے۔ وہ کائنات کے بارے میں جاننا چاہتا یے ، اپنے وجود کے بارے میں جاننا چاہتا ہے کہ وہ اس کائنات میں کیسے اور کہاں سے آیا ہے۔ اس کی زندگی کا مقصد کیا ہے اور بالآخر اس کو کہاں جانا ہے؟
غور کیا جائے تو یہ سوال بے فائدہ ہے کہ انسان دنیا میں کیسے اور کہاں سے آیا ہے ؟ دنیا میں آنے سے پہلے اس کی مرضی نہیں پوچھی گئی۔ خدا نے نہیں پوچھی۔ انسان کے والدین نے نہیں پوچھی۔ اس لیے اصل سوال تو یہ ہے کہ زندگی کیسے گزاری جائے اور مرنے کے بعد کیا ہوگا؟ آغاز کے بارے میں جان کر کوئی وقت کو تبدیل نہیں کرسکتا کہ فیصلہ کرے کہ اس کو اس دنیا میں آنا ہے یا نہیں۔
اس کے باوجود بھی انسان اس کیوں کا جواب تلاش کرتا ہے ۔ جبکہ کہاں جانا ہے اس بارے میں سائنس بھی جواب تلاش نہیں کرتی اور انسان بھی اس سوال کو نظر انداز کرتا ہے
قران کریم مستقبل کے حوالے سے گفتگو کرتا ہے۔ اور دنیا میں تزکیہ نفس اور اطاعت خداوندی کو دنیاوی و آخروی کامیابی قرار دیتا ہے ۔ یعنی قرآن فیوچر اوریئنٹڈ ہے ۔ وہ ماضی کے حوالے مختصر جواب ضرور دیتا یے مگر توجہ مستقبل پر دیتا ہے
خرد مندوں سے کیا پوچھوں میری ابتداء کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں، میری انتہاء کیا ہے
افسوس ہے کہ اس کتاب کو جو متقین کے لیے ہدایت ہے اس کو رزق کمانے کا زریعہ بنا لیا گیا۔ اسی کے زریعے سے رزق میں اضافہ ہونے لگا، اسی کے زریعے بچے پیدا کیا جانے لگے، بیماریاں دور ہونے لگیں اور فال نکالی جانے لگی۔
یعنی قران آج بھی مہجور ہی ہے
تِلْكَ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِیْنَ لَا یُرِیْدُوْنَ عُلُوًّا فِی الْاَرْضِ وَ لَا فَسَادًاؕ-وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْنَ۔
(سورہ قصص آیت 83)
“یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے بناتے ہیں جو زمین میں تکبر اور فساد نہیں چاہتے اوراچھا انجام پرہیزگاروں ہی کیلئے ہے”
اللہ ہمیں قرآن پر تدبر کی توفیق عنایت فرمائے
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com