عہد امام محمد باقر سے شیعت کا ارتقاء۔ ایک جائزہ (7)

امام موسی کاظم کی وفات قید خانے میں ہوئی جو ان کے چاہنے والوں کے لئے ایک ناقابل یقین خبر تھی۔ بہت سے لوگوں نے اس بات کا انکار کیا اور ان کے آٹھ مہینے بعد واپس آنے کی پیشن گوئی کی۔ (1)

امام موسی کاظم کے متعلق شیعہ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ یہی قائم ہونگے اور حکومت کے خلاف قیام کریں گے۔ ان کی وفات کے وقت ان کے کچھ وکلاء کے پاس زکات اور لوگوں کے دیے ہوئے ہدیے جمع تھے جن کی تعداد دس سے ستر ہزار دینار تک بتائی جاتی ہے۔ (2)

ان میں سے بعض وکلاء نے بھی امام موسی کاظم کی وفات کا انکار کردیا۔ اور ایک فرقہ جس کو واقفیہ کہا جاتا تھا کی بنیاد پڑی۔ یاد رہے کہ امام موسی کاظم نے پہلی دفعہ وکلاء کے نظام کی بنیاد ڈالی تھی جو مدینے بغداد اور حجاز میں آپ کے چاہنے والوں سے عطیات وصول کرتے تھے۔ اس سے پہلے امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کے زمانے تک وکلاء کا نظام موجود نہیں تھا اور لوگ خود ان کی خدمت میں حاضر ہوکر عطیات، زکوتہ اور ہدیے پیش کیا کرتے تھے۔ خلیفہ منصور نے امام جعفر صادق کو جب عدالت میں حاضر ہونے کا حکم دیا تھا تو ان پر لگائے گئے الزامات میں سے ایک الزام یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں سے خراج وصول کرتے ہیں ۔ (3) بعینہ یہی الزام امام موسی کاظم پر بھی حکومت وقت نے لگایا تھا۔

واقفیہ کا وجود بہت زمانے تک ائمہ کے دور میں رہا اور ہمیں امام محمد تقی کا ایک قول ملتا ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ “شیعوں کو چاہیے کہ ان کے پیچھے نماز نہ پڑھیں”(4)
ان ہی میں سے بعض لوگ امام موسی کاظم کے بعد کے ائمہ کو گالیاں دیا کرتے تھے اور ان کے شیعوں کے ذہنوں میں اپنے نظریات ٹھونسنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو ممطورہ ( یعنی ایسی آوارہ کتیا جو بارش میں بھیگ جاتی ہے اور پھر لوگوں کے درمیان بیٹھ کر خود کو جھٹکتی ہے تو اس کے جسم کے نجس قطرے دور دور تک پھیل جاتے ہیں) کہا گیا۔ ان کا سردار بشیر نامی ایک غالی تھا جس کو امام موسی کاظم کا صحابی بھی کہا گیا۔ لیکن امام موسی کاظم کی اس کو بددعا اور اس پر لعنت کتابوں میں موجود ہے۔ بشیر خود کو امام کا وصی کہتا تھا اور امام موسی کاظم کی وفات کے بعد اس کا اور اس کے ماننے والوں کا عقیدہ تھا کہ امام موسی کاظم لوگوں میں موجود ہیں مگر لوگ امام کو درک کرنے سے عاجز ہیں یعنی امام لوگوں کے درمیان موجود ہیں لیکن لوگ امام کو نہیں پہچان پاتے۔ (5) اثناعشری شیعہ امام مہدی کی غیبت کے متعلق یہی عقیدہ رکھتے ہیں کہ وہ آج بھی لوگوں میں موجود ہیں مگر لوگ ان کو پہچان نہیں پاتے۔

امام علی رضا کو مامون کے ولی عہد قرار دینے کے بعد ان کے چاہنے والوں کو یہ امید ہوئی کہ اب زمام خلافت اہلبیت کے ہاتھ میں آجائے گی مگر امام کی وفات نے ان ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ان کے بعد امامت امام محمد تقی کی طرف منتقل ہوئی اور یہ سوال پیدا ہوا کہ ایک سات سال کا لڑکا کیا امامت کے عہدے کے قابل ہوسکتا ہے؟ اس معاملے کو بعد میں یہ کہہ کر سلجھا لیا گیا کہ امامت اللہ کی طرف سے ایک عطا ہے اور امام پر خدائی عنایتیں ہوتی ہیں اور وہ علم لدنی کا حامل ہوتا ہے۔

امام محمد تقی جواد کے زمانے تک شیعت بہت مستحکم ہوگئی تھی۔ امام کے چاہنے والے پابندی سے آپ کی خدمت میں عطیات اور ہدیے بجھواتے تھے۔ امام محمد تقی نے 220/835 میں ایک فرمان جاری کیا جس کی رو سے 20 فیصد خمس کا اطلاق لوگوں کی سال بھر کی بچت پر کیا گیا اور یہ ایک واجب ٹیکس تھا جو مومنین کی آمدنی پر لگایا گیا۔ (6)

(جاری)

حوالہ جات :

1۔ کشی ، رجال ، 406
2۔ غیبہ، طوسی صفحہ 44
3۔ مجلسی ، بحار الانوار، جلد 47 صفحہ 187
4۔ کشی، رجال صفحہ 319
5۔ کشی، رجال، ص 477 -478
6۔ طوسی، تہذیب جلد 4 صفحہ 141

ابو جون رضا

2

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *