جیسا کہ گذشتہ تحریروں میں بیان کیا گیا تھا کہ امام جعفر صادق نے لوگوں کے پرزور اصرار پر بھی قیام نہیں کیا جبکہ حالات بہت ساز گار تھے۔ جس کی وجہ سے ان کے ماننے والوں میں بے چینی اور مایوسی پھیلی خاص کر ان لوگوں میں جو شیعت کے سنہرے دور کے خواب دیکھ رہے تھے (1)
امام جعفر صادق کے دو بیٹوں نے بہت شہرت پائی۔ ایک امام محمد اسماعیل اور ایک امام موسی کاظم۔ امام محمد اسماعیل نے امام جعفر صادق کی زندگی میں وفات پائی مگر ان کے پیروکار ان کو امام ہی سمجھتے تھے۔ اور ان ہی سے اسماعیلی فرقہ کا آغاز ہوا تھا۔ اثناعشری کے نزدیک امام محمد اسماعیل کے معاملے میں اللہ کو بداء ہوا تھا۔ جیسا کہ کافی کی ایک روایت میں بیان ہوا ہے
” ابو ہاشم جعفری کہتے ہیں کہ میں ابوالحسن(امام علی نقی) کے پاس تھا جب ان کے لڑکے ابوجعفر کا انتقال ہوا۔ میں اپنے دل میں سوچ رہا تھا کہ ابو جعفر اور ابو محمد کا وہی قصہ ہوا جو امام جعفر کے دونوں بیٹوں موسی اور اسماعیل کا ہوا تھا کیونکہ اب ابو جعفر کے بجائے ابو محمد ( حسن عسکری) کو امام تجویز کیا گیا۔ امام ابوالحسن(علی نقی) میرے بولنے سے پہلے ہی میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا
ہاں اے ابو ہاشم ! ابو جعفر کے فوت ہونے کے بعد اب ابو محمد کے بارے میں اللہ کی رائے وہ ہوگئی ہے جو پہلے اس کے لیے معروف نہ تھی۔ جیسا کہ اسماعیل کے فوت ہونے کے بعد اللہ کی رائے موسی (کاظم) کے بارے میں ہوگئی۔ جس کی وجہ سے اس کا حال کھل گیا۔ قصہ وہی ہے جیسا تمہارے دل میں خیال آیا۔ خواہ باطل پرستوں کو ناگوار ہو، میرا بیٹا ابو محمد (حسن عسکری ) میرا جانشین ہوگا۔ اس کے پاس بقدر ضرورت علم بھی ہے اور آلات امامت بھی” (2)
یہی روایت بحار الانوار جلد 50 میں بھی الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ نقل ہوئی ہے جس میں امام علی نقی ابو ہاشم سے کہتے ہیں کہ اللہ کو اس معاملے میں بداء ہوا ہے۔
اس زمانے کے شیعہ امامت کو بڑے بیٹے سے خاص سمجھا کرتے تھے۔ جب امام جعفر صادق نے (اپنے بعد) اپنے بیٹے امام اسماعیل کی امامت کی طرف اشارہ کیا (کہ میرے بعد اسماعیل امام ہوگا) اور پھر ان کی زندگی ہی میں اسماعیل کا انتقال ہوگیا تو امام جعفر صادق کے پیروکار ان سے برگشتہ ہوگئے اور کہا کہ امام جعفر صادق نے ہم سے جھوٹ بولاہے۔ یہ امام نہیں ہے کیونکہ امام تو جھوٹ نہیں بولتا بلکہ وہ کہتا ہے جو بعد میں واقع ہونا ہو۔ ان لوگوں نے کہا کہ امام جعفر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی کو اسماعیل کی امامت میں بداء ہو گیا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ اللہ کے بداء اور مشیت کے منکر ہوئے اور کہنے لگے یہ باطل اور ناجائز ہے۔ (3)
خلفائے فاطمی شروع میں امام اسماعیل کی بجائے ان کے بھائی عبداللہ افطح کو اپنا امام مانتے تھے اور بعد میں اس امر سے عدول کرکے اسماعیل کی امامت کا ذکر کرنے لگے۔(4)
امام محمد اسماعیل کی مذمت میں روایات وارد ہوئی ہیں جن کے مطابق ان کی ایسی لوگوں سے دوستی اور محافل میں آمدروفت تھی جس کو امام جعفر صادق پسند نہیں کرتے تھے۔ مشہور ہے کہ بعض غالیوں جیسے مفضل بن عمر و بسام صیرفی کے ساتھ آپ کے روابط تھے جس سے امام صادقؑ راضی نہیں تھے۔جبکہ بعض نے خطابیہ کے ساتھ ان کے ارتباط اور اسماعیلیہ فرقہ کی پیدائش میں ان دونوں کے کردار کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ان کے بقول ابو الخطاب اور امام اسماعیل نے امام صادقؑ کی حیات ہی میں ایک دوسرے کی مدد سے ایسے عقائد کی بنیاد رکھی جو بعد میں اسماعیلیہ کی اساس بنے۔ (5)
آیت اللہ خوئی امام اسماعیل کی مذمت والی روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں اور مدح والی روایات کو قبول کرتے ہیں۔ (6)
امام موسی کاظم کے دور میں یہ خیال زور پکڑ گیا کہ اب قائم کا ظہور ہوگا۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ امام جعفر صادق ہی مہدی ہیں اور وہ دوبارہ ظہور کریں گے۔ یہ گروہ نادوسیہ کہلاتا تھا۔
امام موسی کاظم نے وکلاء کی بنیاد ڈالی جو ملک کے کونے کونے سے امام کی نیابت میں زکات اور ہدیہ وغیرہ جمع کرتے اور ان کو مدینے بجھوا دیتے۔ جس کی وجہ سے یہ خیال زور پکڑ گیا کہ امام موسی کاظم حکومت کے خلاف قیام کریں گے۔ یہ بات ہارون الرشید کو ناگوار گزری اور اس نے امام موسی کاظم کو گرفتار کروا کر عراق منتقل کردیا۔
(جاری)
حوالہ جات :
1۔غیبہ ، شیخ طوسی ، 262،263، 265
2۔اصول کافی جلد 1، ص 327
3۔نوبختی فرق الشیعہ، صفحہ 110
4۔ابن حزم، جمهرة انساب العرب،ص۵۹
5۔کشی، رجال الکشی، ۱۴۰۹ق، ص۲۴۵
6۔خوئی، معجم رجال الحدیث، ج۳، ص۱۲۵
ابو جون رضا