عہد امام محمد باقر سے شیعت کا ارتقاء۔ ایک جائزہ (5)

ایک اور شخص جس نے امام محمد باقر کے لیے مشکلات کھڑی کیں وہ مغیرہ بن سعید عجلی ہے۔ وہ گورنر خالد بن عبداللہ قسری کا مصاحب تھا۔ اس نے دعوی کیا کہ امام محمد باقر نے اس کو وصی مقرر کیا ہے۔ اس نے یہ بھی دعوی کیا کہ اس کے پاس جبرئیل آتے ہیں۔ خالد بن عبداللہ نے اس کو گرفتار کرکے سولی پر چڑھادیا۔ (1)

امام زید کے خروج کو ناکام بنانے میں ایک کردار امام محمد باقر کا تھا ۔ یہ خیال قاضی نعمان کا ہے۔ جن کے مطابق امام محمد باقر کو یہ خطرہ ہوا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے تو آپ نے ایک شخص کو سکھا پڑھا کر بھیجا۔ اس نے عین اس وقت جب امام زید اپنے حامیوں کے ساتھ بیٹھے تھے، امام زید سے سوال کیا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ، آیا وہ ان کے والد کی خواہشات کے مطابق ہے؟ اس پر امام زید نے اس بات کا انکار کیا مگر اپنے نظریہ خروج کو بیان کیا جس کے مطابق امام کہلانے کا مستحق وہ شخص ہے جو رسمی بیعت اور خروج کی طرف بلائے۔ تو اس شخص نے پوچھا کہ اگر سارے لوگ جو آپ کے ساتھ ہیں وہ بیعت کی طرف بلائیں اور خروج کی دعوت دیں تو کیا سب امام کہلائیں گے؟ اور اگر آپ لوگوں میں سے کوئی بغاوت کے لیے کھڑا نہ ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی امام نہیں ہے؟

امام زید اس کے جواب میں خاموش رہے۔ اور ان کے پیروکاروں نے ان کے دعوی کی کمزوری کو بھانپ لیا۔ پھر اس شخص نے کہا کہ مجھے خبر پہنچی ہے کہ امام زین العابدین نے اپنے فرزند امام محمد باقر کے حق میں وصیت کی ہے۔ تو امام زید نے فرمایا کہ اگر ایسی بات ہے تو انہوں نے یہ بات مجھے کیوں نہ بتائی؟

اس پر اس شخص نے جوابا پوچھا کہ کیوں حضرت یعقوب نے اپنے فرزند حضرت یوسف کو منع کیا تھا کہ اپنے خواب کو اپنے بھائیوں سے بیان نہ کریں مبادا وہ کوئی سازش کریں؟

اس کے جواب میں بھی امام زید خاموش رہے۔ پھر جناب زید کے حامیوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے حوالے سے امام زید سے کچھ سوالات کیے اور پھر ان کو شیخین کے لئے اچھے الفاظ استعمال کرتے دیکھ کر ان سے جدا ہوگئے۔ (2)

لیکن یہ بات امام محمد باقر پر ایک الزام سے زیادہ نہیں لگتی کہ وہ اپنے سوتیلے بھائی کے اقدام کی سنگینی سے واقف نہ ہوں اور پھر جان بوجھ کر لوگوں کو ان سے متنفر کر کے ان کی موت کا سامان مہیا کریں۔ جبکہ قاضی نعمان امام محمد باقر کی وفات کی تاریخ 114ھ/732ء بتاتے ہیں اور امام زید کی وفات کی تاریخ 122ھ/ 739ء بیان کرتے ہیں۔ یعنی امام زید کا خروج امام محمد باقر کی وفات کے بعد ہوا ہوگا۔ اس لحاظ سے امام محمد باقر کی وفات کی تاریخ ایک تحقیق طلب سوال ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ مناظرہ مومن طاق کے زکر میں الفاظ کے رد و بدل کے ساتھ قاضی نور اللہ شوستری نے بھی کلینی کی کافی سے نقل کرتے ہوئے مجالس المومنین میں لکھا ہے اور ان کو امام جعفر صادق سے داد بھی وصول پاتے بیان کیا ہے۔ (3)

آیت اللہ ہاشم معروف کے نزدیک امام زید سے شیخین کے متعلق سوال مخالف لشکر کے سردار کے کسی آدمی نے کیا تھا جو سکھا پڑھا کر بھیجا گیا تھا جس کی وجہ سے امام زید کو کوفی چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔ اور بعد میں رافضی کہلائے۔(4)

ابو مخنف کے بیان کے مطابق کوفہ کے شیعوں نے شیخین کے متعلق اپنے احساسات کو کبھی نظر انداز نہیں کیا۔ لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر کوفہ کے شیعوں کا کردار تاریخ میں ہمیشہ سے بے وفا اور مطلب پرست لوگوں کا رہا ہے۔ انہوں نے امام علی سے بے وفائی کی، امام حسن کے ساتھ برا سلوک کیا اور پھر امام حسین کو کوفہ بلا کر وعدے سے پھر گئے اور ان کا ساتھ نہ دیا۔ اس کے بعد تحریک توابین میں شامل ہوئے، قسمیں کھائیں اور آخر میں سلیمان بن صرد خزاعی کو بھی میدان کارزار میں چند ساتھیوں کے ساتھ اکیلا چھوڑ دیا۔

غور کیا جائے تو شیخین کی فضیلت یا مقام کا سوال صرف ایک بہانہ ہوسکتا ہے یعنی جب موت کوفیوں کے سر پر آئی تو کوئی بھی بہانہ بناکر فرار ہوگئے۔ یہ بھی امکان ہے کہ کوفیوں نے بعد میں عزر تراشنے کے لیے یہ واقعات گھڑ لیے ہوں جیسا کہ انہوں نے واقعہ کربلا کے بعد اہلبیت کی فضیلت میں غلو کیا اور ان کی شان میں روایات گھڑیں۔

حوالہ جات :

1۔ نوبختی، فرق الشیعہ ص، 53-52
2۔ القاضی النعمان، مناقب ، صفحہ 303-304
3۔ نوراللہ شوستری، مجالس المومنین ، ص 409
4۔ ہاشم معروف ، سیرت ائمہ اہلبیت ، باب امام زین العابدین۔

(جاری)

ابو جون رضا

1

1 thought on “عہد امام محمد باقر سے شیعت کا ارتقاء۔ ایک جائزہ (5)”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *