امام جعفر صادق کے دور تک زیادہ تر شیعہ اس بات پر یقین رکھنے لگے تھے کہ امام کا بڑا بیٹا ہی اگلا امام ہوتا ہے۔ جس کو امام وصیت کے زریعے یا اپنے پاس موجود کسی نص سے منتخب کرتا ہے۔ امام ہمیشہ اہلبیت کے خاندان کا مرد ہی ہوتا ہے اور خواتین کو اس معاملے میں کسی قسم کا کوئی اختیار حاصل نہیں ہے۔
حضرت علی کو امام ماننے والے یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ امام رسول کے بعد امت کا سپریم لیڈر ہے اور اس کے مذہبی، خارجی اور داخلی امور کا نگہبان ہے۔ بہت سے آرتھو ڈوکس سنی یہ مانتے تھے کہ حضرت علی کی نسل میں ایسے لوگ گزرے جو زمانے کے خلیفہ سے بہتر تھے۔ جیسے ذہبی نے سیرہ اعلام النباء میں لکھا کہ
” حسن ، حسین، علی بن الحسین اور محمد باقر خلافت کے بہترین اہل تھے۔ جعفر صادق عباسی خلیفہ منصور سے زیادہ خلافت کے لیے استحقاق رکھتے تھے اور ان کے فرزند موسی کاظم ہارون رشید سے زیادہ خلافت کے اہل تھے”
اس زمانے کے شیعہ یقین رکھتے تھے کہ جب وقت آئے گا تو رسول کے گھرانے سے ایک شخص اٹھے گا اور زمام کار کو اپنے ہاتھ میں لے گا۔ اس وقت شیعہ حکمران پارٹی بنیں گے اور مخالفین کی ریشہ دوانیوں سے نجات پائیں گے۔ اور وہ شخص قائم کہلائے گا یعنی وہ جو قیام کرے۔ (1)
امام محمد باقر کے دور میں بنی امیہ شورشوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔ اس زمانے میں شیعوں کو امید تھی کہ امام بنی امیہ کے خلاف قیام کریں گے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا جو شیعوں کے لیے بہت حیرت کی بات تھی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ قیام کے لیے حالات بہتر ہیں۔ کچھ زمانے بعد ان کے فرزند امام جعفر صادق نے بھی حکومت کے خلاف قیام نہیں کیا جبکہ حالات موافق نظر آتے تھے۔
شیعوں کے خیال میں امام جعفر صادق کے لیے حالات قیام کے لئے ہر دور سے زیادہ سازگار ہیں۔ جیسا کے ان کے ایک شیعہ نے ان سے کہا کہ آدھی سے زیادہ دنیا آپ کے حق کو تسلیم کرتی ہے۔ کوفہ کے لوگ بھی اس انتظار میں تھے کہ آپ حکم جاری کریں تو وہ کوفہ کی حکومت پر قبضہ کرلیں۔ لیکن امام جعفر کا سکوت ان کے چاہنے والوں کو مایوسی میں مبتلا کر گیا ۔ کچھ چاہنے والوں نے اس پر اعتراضات بھی کیے جس کو کلینی نے کافی کی جلد دوئم میں نقل کیا ہے۔
لیکن امام جعفر صادق نے ان باتوں پر کان نہ دھرے اور اپنے چاہنے والوں کو ہدایت کی کہ کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں شامل نہ ہوں اور نہ ہی کسی شورش کا حصہ بنیں۔ عیاشی کی جلد اول کے مطابق آپ اس وقت امام کہلانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔
اس صورت حال نے شیعوں کو مجبور کیا کہ وہ اپنے پرانے عقائد پر نظر ثانی کریں اور بہت سے متحرک شیعہ نفس زکیہ کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ کچھ بیدار مغز شیعہ تحریک میں شامل نہ ہوئے مگر اس انتظار میں رہے کہ کب نفس زکیہ کو شکست ہو اور امام قیام کریں۔ کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ نفس زکیہ کے قتل کے پندرہ دن بعد قائم خروج کرے گا۔ اس سلسلے کی روایات جن کو کلینی نے کافی کی جلد 1 میں نقل کیا وہ بتاتی ہیں کہ اس پر بات پر اس دور کے شیعہ اس قدر پریقین تھے کہ انہوں نے نفس زکیہ کی تحریک کے اٹھنے کے ساتھ ہی روزے رکھنے شروع کیے کہ قائم کا ظہور ہونے والا ہے۔
یہ روایات آج بھی امام مہدی کے قیام کے اخبار میں شامل ہیں جن کو اصول کافی اور دوسری کتب میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے
کچھ شیعہ جھتے یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ضروری نہیں ہے کہ امام سیاست میں حصہ لیں بلکہ ان کا سب سے بڑا عالم ہونا ان کے امام ہونے کے لیے کافی ہے۔ امام کا اصل کام یہ ہے کہ وہ دین کو اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ رکھے اور اس میں پیدا ہونے والی بدعات کا قلع قمع کرے۔ (2)
امام جعفر صادق کے سیاست میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے مکتب امامت کے ماننے والوں کی سوچ میں تبدیلی آئی اور امام کا کردار سیاسی سے زیادہ مزہبی ہوگیا۔
اسی زمانے میں امام کے شاگرد ہشام بن حکم نے امام کے لیے عصمت کا نظریہ پیش کیا کہ امام کو خدا کی تائید حاصل ہوتی ہے اور اشعری اور بغدادی کے مطابق ہشام پیغمبر کے معصوم ہونے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے کیونکہ عالم غیب سے متصل ہونے کے کی وجہ سے جب بھی گناہ میں مرتکب ہونے کا خدشہ پیش آتا خدا انہیں ان کی غلطی اور اشتباہ سے آگاہ کرتے ہیں لیکن امام چونکہ اس کا خدا سے براہ راست رابطہ نہیں ہوتا اسے لئے اسے معصوم ہونا ضروری ہے۔(3)
حوالہ جات
1۔ غیبہ از نعمانی صفحہ 287، 288، عیاشی جلد دوئم صفحہ 218، کلینی ، اصول کافی جلد 1 صفحہ 369
2۔ اصول کافی جلد 1 صفحہ 178، کمال الدین از شیخ صدوق صفحہ 223 ، 224، 229
3۔ اشعری، کتاب مقالات الاسلامیین واختلاف المصلّین صفحہ 47 بغدادی الفرق بین الفرق صفحہ 67، 68، عصمت مقالہ میڈلونگ صفحہ 181
(جاری)
ابو جون رضا