جناب سیدہ جب اسلام آیا تو بہت کم عمر تھیں۔ اپنی والدہ کے انتقال کے بعد انہوں نے اپنے والد کی بہت خدمت کی۔انہوں نے اپنے والد پر راہ اسلام میں پڑنے والی مشکلات اور تکالیف کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور محسوس کیا۔
ایک دفعہ حالت نماز میں نبی کریم پر کسی نے اوجھڑی لاکر ڈال دی تھی۔ اپ کو کسی نے خبر دی تو آپ گئیں اور اوجھڑی کو ہٹایا۔ اور والد کے کپڑے صاف کیے۔
مکے میں ان کے سامنے ان کی دو بہنوں کی طلاق ہوئی تھی جس کا سبب صرف نبی کریم کی مخالفت تھی اور ان کو تکلیف پہنچانا مقصود تھا۔
ان کی بڑی بہن جناب زینب نے جب ہجرت کی تو وہ اس وقت حاملہ تھیں لیکن اپنے شوہر ابوالعاص بن ربیع جو ایمان نہیں لائے تھے کے نکاح میں تھیں۔ ان کو مکے سے باہر راستے میں ایک مشرک نے نیزے سے ڈرایا تھا اور ایک روایت کے مطابق ان کو تیر لگا تھا جس کی وجہ سے وہ اونٹ سے گر گئی تھیں اور ان کا حمل ضائع ہوگیا تھا۔ وہ مدینے پہنچ کر بیمار رہنے لگی تھیں جناب سیدہ نے ان کی بھی خدمت کی اور ان کے انتقال پر اپنے والد کا سہارا رہیں اور ان کی دلجوئی کی۔
نبی کریم کی آنکھوں سے لوگوں نے اس موقع پر آنسو گرتے دیکھے ۔ آپ نے فرمایا۔ زینب میری سب سے اچھی بیٹی تھی اس نے میری محبت میں تکلیفیں برداشت کیں۔
جناب سیدہ اپنی بڑی بہن سے اتنی محبت کرتی تھیں کہ انہوں نے اپنی بڑی بہن کی بیٹی سے شادی کرنے کی اپنے مرض وفات میں حضرت علی کو سفارش کی۔
جناب سیدہ جنگوں میں زخمیوں کی تیمار داری کے لیے مدینے کے خواتین کے ساتھ میدان جنگ جایا کرتی تھیں۔ انہوں نے مدینے سے باہر خواتین کے ساتھ مل کر کھانا پکانے وغیرہ کے کام بھی سر انجام دیے۔
انہوں نے اپنی ملازمہ کے ساتھ حسن سلوک کی مثال قائم کی اور ایک دن ان کو کام کا کہا اور دوسرے دن ان کو آرام کروایا اور خود کام کیا۔
جس طرح سے رسول اکرم کے اہلبیت غربت میں زندگی بسر کرتے تھے۔ ازواج جس طرح سے بھوکی رہتی تھیں۔ اسی طرح سے اپ نے بھی فاقہ کشی کی ہے اور دنیا کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھا۔
اپ کی اعلی تربیت کی امام حسن اور امام حسین اور جناب زینب کی شکل میں مثالیں موجود ہیں۔
اپ نے بہت کم عمر پائی۔ اس وجہ سے اپ کی زات سے نبی کریم کے افکار کی امت تک منتقلی کا مرحلہ پیش نہیں آسکا۔ آپ کو نبی کریم نے ایک ورد تعلیم کیا جو امت میں آج تسبیح بی بی فاطمہ کے نام سے مشہور اور رائج ہے۔
جناب سیدہ کو غم تھا کہ ان کے شوہر کو حکومت سے الگ رکھا گیا۔ اور ان کی نظر میں ان کے شوہر امت کی زیادہ بہتر انداز میں رہنمائی کر سکتے تھے۔
یہ غم ان کو اندر سے گھلا گیا ۔
اور آپ رسول اکرم کی وفات کے کچھ ہی عرصے بعد انتقال کر گئیں۔
زمانے دراز بعد ان سے مافوق الفطرت باتیں منسوب کی گئیں اور معجزات بیان کیے گئے۔ یہاں تک کہ ان کی گھر کی خادمہ بھی معجزے دکھاتی تھیں۔
لیکن کمال یہ ہے کہ رسول اکرم کی دوسری ازواج جو حضرت علی کے مدمقابل نہیں آئیں ان سے کوئی معجزہ سننے کو نہیں ملا اور نہ ہی رسول اکرم کے گھر کی خواتین کی خادمائیں کوئی معجزہ دکھاتی نظر آئیں۔
غلو نے جناب سیدہ کو جناب مریم اور جناب ہاجرہ جیسی خواتین سے بڑھا دیا۔ اور کچھ لوگ نے یہاں تک روایات گھڑیں کہ اللہ نے نبی کریم سے کہا کہ میں نے سب کچھ اپ کی محبت میں پیدا کیا۔ اور میں کچھ نہ خلق کرتا اگر آپ کو خلق نہ کرتا۔۔اور اپ کو بھی خلق نہ کرتا اگر علی کو خلق نہ کرتا اور آپ دونوں کو خلق نہ کرتا اگر فاطمہ کو خلق نہ کرتا۔
ایک مولانا جو ایت اللہ بھی تھے وہ کہتے تھے کہ نماز میں خضوع و خشوع کے لیے جناب سیدہ کی عظمت کا تصور کرو۔
ان کا اختلاف خلیفہ اول سے رہا اور خلیفہ اول کو جہنم کے قریب قرار دینے کے لیے جنت میں داخلے کے لیے جناب سیدہ کی رضا مندی کو مشروط قرار دیا گیا۔ جبکہ اسلام نے کسی بھی شخصیت کی رضا مندی کو جنت میں داخلے کی شرط قرار نہیں دیا ہے۔ انسان قران و سنت پر عمل پیرا ہے اور اللہ کی رضا مندی کو مدنظر رکھتا ہے یہی اس کے لیے کافی ہے۔
ان جعلی روایات کی وجہ سے خود ان کی والدہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا کی اسلام کے لیے خدمات گہنا گئیں جن کے لیے بجا طور پر محسن اسلام کا لقب استعمال کیا جاسکتا ہے۔
جعلی معجزے، کہانیاں، نزر نیاز سب جانب سیدہ کے نام سے ہونے لگا۔ ان کے مختلف نام رکھے گئے اور کسی بھی کام کے کو جلد انجام دلوانے کے لیے برصغیر میں ان کے معجزات کو کہانیاں بنا کر سنا جانے لگا جس کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
بیس سال پہلے ایت اللہ جواد تبریزی نے ایام فاطمیہ کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کا مقصد جناب سیدہ کی سیرت کے بیان سے زیادہ فدک ، دروازے گرانے اور بچہ سقط ہوجانے والے مصائب کا بیان تھا۔
یہ رسم اب سال میں دو دفعہ منائی جانے لگی ہے جن کا اصل مدعا رونا پیٹنا اور ضعیف اور مرسل روایات کا بیان ہوتا ہے۔ ان مجالس میں خلیفہ اول اور دوئم پر کھلے اور ڈھکے چھپے ہر انداز میں تبراء ہوتا ہے اور رونے پیٹنے کے بعد اس مجلس کے ثواب کو آخرت میں بی بی کی شفاعت کا زریعہ سمجھ لیا جاتا ہے۔
اسی وجہ سے آج ایک شیعہ نبی کریم کی جناب سیدہ کی شان میں بیان کی گئی دو چار روایات سنا سکتا ہے یا ان کے مصائب بیان کر سکتا ہے مگر ان کی اسلام کے لیے خدمات بیان کرنے سے قاصر نظر آتا ہے۔
ایام فاطمیہ کبھی حضرت علی اور ان کی اولاد نے نہیں منائے جو آج ایک تبرائی محفل کے انداز میں شیعوں میں رائج ہوگئے ہیں۔ اور ان سے مولانا اور زاکرین حضرات کا پیٹ وابستہ ہوگیا ہے۔
اس طرح کے ایام جتنے زیادہ سال میں منائے جائیں گے ان کی زاکرین اور ملاوں کی طرف سے اتنی ہی حوصلہ افزائی کی جائے گی۔
دعا ہے کہ پروردگار ہمیں سیرت نبی کریم اور ائمہ اہلبیت کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com