ہندوستان میں عزاداری کا اہم مرکز اودھ رہا ہے۔ فیض آباد میں ایک تعزیہ سے عزادری کی ابتداء ہوئی اور بعد میں نواب صفدر جنگ کی اہلیہ صدر جہاں بیگم نے وہاں ایک امام باڑہ تعمیر کروایا۔
نواب شجاع الدولہ کو عزاداری سے بہت شغف تھا۔ وہ جنگی مہم میں بھی ایک تعزیہ ساتھ رکھا کرتے تھے۔
جب نواب آصف الدولہ نے اودھ کا دالحکومت فیض آباد کی جگہ لکھنو منتقل کیا تو عزاداری کی ساری رونق سمٹ کر لکھنو میں آگئی۔ امام باڑہ آصفی نواب آصف الدولہ کے خصوصی شغف سے تعمیر ہوا۔ اس کی آرائش پر سالانہ پانچ لاکھ روپے خرچ ہوتے تھے۔
ان امام باڑوں کے علاوہ خوابوں میں بشارت کے زریعے قائم ہونی والی عزاداری، تعزیہ ،علم اور درگاہوں کی بھی کمی نہ تھی۔درگاہ حضرت عباس جس کی تعمیر بھی آصف الدولہ کے دور میں انجام پائی اس کی بنیاد ایک خواب پر ہے۔ ایک صوفی درویش مرزا فقیر بیگ کو حج کے موقع پر خواب میں بشارت ہوئی کہ ایک درگاہ حضرت عباس کے نام پر تعمیر کریں۔ انہوں نے حج سے واپسی پر آصف الدولہ کو یہ خواب سنایا۔ انہوں نے ایک عالیشان درگاہ تعمیر کروائی جس کے لیے چاندی کے علم، چاندی کے صندوق اور چاندی کا منبر نذر کیا۔ فورا ہی وہاں حاجت مندوں کی قطاریں لگ گئیں، مرادیں آنے لگیں، ساتھ ہی ساتھ وہاں عزاداری بھی منعقد ہونے لگی۔
بشارت بادشاہ کو کیوں نہیں ہوئی اس سوال کا جواب نہیں مل سکا۔
اس دور میں تبرکات پیش کرنے والوں سے لیکر روضہ خوانی کرنے والوں تک اور مرثیہ نگاروں سے لیکر تعزیہ بنانے والوں تک کے منہ پیسے سے بھر دیے جاتے تھے۔ گھر گھر تعزیہ داری ہوتی تھی۔ نواب صاحب زیارت کے لیے تشریف لے جاتے تھے۔تعزیہ پر نذر گزاری کی جاتی تھی اور پانچ پانچ سو روپے تک نذر کیے جاتے تھے۔ یہ دیکھ کر ہندو حضرات بھی تعزیہ بنانے لگے اور ان کے تعزیہ پر زیادہ رقم نذر کی جاتی تھی
نواب صاحب کی زر پاشی کا بہاو شیعوں سے زیادہ سنیوں کی طرف ہوتا تھا۔ ہندوحضرات سنیوں سے بھی زیادہ نقد رقم بٹورتے تھے۔
نواب سعادت علی خان کے دور میں پہلی بار لکھنو میں چہلم امام حسین کی ابتداء ہوئی۔ اس سے پہلے بارہ محرم کے بعد عزاداری موقوف ہوجاتی تھی
نواب غازی الدین حیدر کی بیوی بادشاہ بیگم بہت مذہبی تھیں۔ ان کے حکم پر چہلم تک عزاداری کو توسیع دی گئی اور شادی بیاہ کی تقریبات پر پابندی عائد کی گئی۔ انگریز سرکار نے مداخلت کی تو یہ فرمان منسوخ کردیا گیا مگر عزاداری کی جڑیں اودھ میں اس طرح سے پیوست ہوچکی تھیں کہ کوئی بھی چہلم تک تقریب مسرت منعقد نہیں کرتا تھا۔
اس دور کی عزاداری کی تفصیلات ولیم نامی ایک انگریز اور ایک انگریز خاتون جن کو مسز حسن علی کے نام سے جانا جاتا تھا نے قلم بند کی تھیں۔ جن کو
The Private Life of an Eastern King
اور
Observation of Muslim of India
میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ان کو مسز حسن علی کہنے کی وجہ کسی امیر شخص حسن علی سے ان انگریز خاتون کی شادی تھی۔
وہ خاتون لکھتی ہیں ” شب عاشور ہر شخص اپنے امام باڑہ کو آراستہ کرتا تھا۔ قدم قدم پر عزا خانے بنے ہوئے تھے لوگ پوری رات ان عزاخانوں کی زیارت کے لیے گھوما کرتے تھے”
آج بھی شب عاشور مرد و خواتین کا شہر میں رات کو مٹر گشت کرنا اسی دور کی یادگار ہے۔
(جاری)