ہندوستان میں عزاداری کے فروغ میں صوفیاء کا کردار بھی رہا ہے۔ اہل تشیع صوفی ازم اور تصوف سے متاثر رہے ہیں۔ اگرچہ کہ تصوف کے مخالف آراء بھی ان کے یہاں کثیر تعداد میں ملتی ہیں۔ قاضی نوراللہ شوستری شہید ثالث نے مجالس المومنین میں ایک باب تصوف پر بھی قائم کیا ہے اور اس کے لیے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
محمود غزنوی کے حملے کے نتیجے میں ملتان میں اسماعیلی حکومت کے خاتمے اور اسماعیلی پیشواؤں کے صوفیا کی شکل اختیار کر لینے کے بعد صوفیا کی درگاہوں اور سنی بادشاہوں کے قلعوں میں عشرہ محرم کے دوران عزاداری تذکر کے نام سے برپا کی جاتی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ نذر نیاز کے سلسلے بھئ صوفیاء کی پیداوار ہیں۔ اور ان کے مزاج کے مطابق ہیں۔ تحفتہ العوام اردو کی قدیم ترین کتاب جس میں اسلامی مہینوں اور دنوں کے حساب سے مختلف اعمال اور اذکار درج ہیں یہ حسن علی کربلائی نے لکھی اور اس کے بعد ہاتھوں ہاتھ ہر شیعہ کے گھر میں پہنچ گئی ۔اس میں کہیں بھی ماہ محرم کے اعمال میں نزر نیاز اور تعزیہ سجانے کی رسومات کا زکر موجود نہیں ہے۔ اس دور میں عزاداری پہلی محرم سے بارہ محرم تک اور بیس صفر کو چہلم شہدائے کربلا ہوتا تھا۔ عزاداری کو آٹھ ربیع الاول تک جاری رکھنا بعد کا اضافہ ہے۔
عزاداری امام حسین کے مرکز کا نام “امام باڑہ”رکھا گیا۔ یہ قطعی طور پر ہندوستانی اس لیے تھا کہ اس سے پہلے عرب اور ایران میں اس نام کا کوئی ادارہ موجود نہ تھا۔ نیچی ذات والے ہندو اگرچہ اپنے بعض مندروں میں نہیں جاسکتے تھے مگر امام باڑے میں ہونی والی عزاداری میں شرکت کر سکتے تھے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ شاہ عبدالعزیز نے تحفہ اثنا عشریہ کے دیباچے میں لکھا
“اس کتاب کی تالیف کی غرض اور ضرورت اس لیے محسوس کی گئی کہ جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اور جس زمانے میں ہم زندگی گزار رہے ہیں اس میں اثنا عشریہ کا غلبہ اور شہرہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ بامشکل کوئی گھر ایسا ہوگا جس میں کوئی نہ کوئی شخص یہ مذہب اختیار نہ کرچکا ہو یا اس سے متاثر نہ ہوا ہو”
جس دور کی بات کی جارہی ہے اس دور میں شیعہ مجتہدین کا ہندوستان میں وجود نہ تھا ۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا یے کہ مودت اہل بیت کی ترویج صوفیاء نے کی تھی اور برصغیر میں پائے جانی والی عزاداری کی رسومات کے سرخیل بھی یہی لوگ تھے۔
(جاری)