عزاداری اور رسومات ایک جائزہ (6)

ہمایوں کو اقتدار ایرانیوں کی بدولت واپس ملا تھا۔ اس وجہ سے اس کی حکومت میں ایرانیوں کا نفوذ زیادہ تھا۔ ان کو عزاداری اور رسومات کی آزادی تھی۔ ایرانیوں کا نفوذ اتنا زیادہ تھا کہ اکبر کے دور کے بارے میں مورخ بدایونی نے “سنیان مغلوب و شیعان غالب” کے الفاظ اپنی تاریخ کی کتاب میں استعمال کیے۔

جہانگیر کی بیوی نورجہاں نے اجمیر شریف میں عزادری کے حوالے سے خصوصی فرمان جاری کروایا تھا جس میں عزائے امام اور تعزیے کا خصوصیت سے زکر کیا اور ان کے مصارف شاہی خزانے سے ادا کیے جانے کا حکم دیا تھا

شاہ جہاں نے ایک خوبصورت ضریح نقل روضہ امام حسین جامع مسجد دہلی میں بنوائی تھی جس کا زکر مولوی عزیز الرحمان حنیفی نے 1936 کی اپنی تصنیف History of Jama e Masjid Dehli میں کیا ہے۔

اس ضریح میں اہلبیت سے منسوب وہ تبرکات جو امیر تیمور نے سلطان بایزید خاں کو شکست دے کر حاصل کیے ، رکھوائے گئے تھے۔ یہ تبرکات نسلا بعد نسل اس خاندان میں منتقل ہوتے آئے تھے۔

اورنگ زیب عالمگیر کے متعلق تاریخ میں ملتا ہے کہ وہ سخت مذہبی انسان تھا اور اس کو سخت متعصب بھی بتایا گیا ہے لیکن سید الشہداء کی عزاداری کے حوالے سے اس کی کوئی ممانعت مستند ذرائع سے ہم تک نہیں پہنچی۔ اس کی بیٹی زیب النساء کی تعزیہ داری اور مجالس میں شرکت کا زکر ملتا ہے۔

اورنگزیب کے زمانے مین حیدرآباد دکن میں شاہی عاشور خانے میں ایک علم نصب تھا جس کے متعلق یہ مشہور تھا کہ اس کو جس زنجیر سے بنایا گیا ہے وہ زنجیر امام زین العابدین کو بحالت اسیری پہنائی گئی تھی۔ اورنگ زیب عالم گیر کے حکم پر اس علم کو شاہی شفاء خانے کی وسیع و عریض عمارت میں نصب کیا گیا تاکہ مریضوں کو اس کی زیارت نصیب ہو اور شفاء حاصل ہو۔ اس علم پر روزانہ پھول چڑھانے اور نجور سلگانے کے لیے مصارف شاہی خزانے سے دیے جاتے تھے۔

محرم میں تابوت کی برآمدگی کے موقع پر شمشیر زنی کی جاتی تھی جس سے ہر سال کچھ لوگ زخمی ہوجاتے تھے۔ اور فساد کی نوبت آجاتی تھی۔ اورنگ زیب نے تابوت کے گشت کے موقع پر شمشیر زنی کی رسم کو منسوخ کردیا۔ اس کی جگہ پٹہ بازی کی رسم کا اجراء ہوا جو آج بھی برصغیر کے مختلف علاقوں میں رائج ہے۔

(جاری)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *