عزاداری اور رسومات ایک جائزہ (5)

تعزیہ کی ابتداء کب اور کہاں سے ہوئی اس بارے میں کوئی حتمی رائے دینا مشکل ہے لیکن محققین اس کی ابتداء ہندوستان ہی قرار دیتے ہیں۔ اگرچہ ابن بطوطہ کے سفرنامہ ہند میں اس حوالے سے کوئی زکر نہیں ملتا۔ عموما ہندوستان کی کتب تاریخ میں علم و تابوت کا زکر ملتا ہے مگر تعزیہ کا زکر نہیں پایا جاتا۔ مشہور یہی ہے کہ امیر تیمور نے تعزیہ کی ابتداء کی جیسا کہ ابوظفر محمد بہادر شاہ ثانی نے اپنی کتاب موج سلطانی میں اس کا موجد امیر تیمور کو قرار دیا۔

امیر تیمور کربلا کی زیارت سے ہر سال شرف یاب ہوتے تھے۔ ایک رات ان کو بشارت ہوئی کہ یہاں آنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک شبیہ روضہ بنوا لو اور ہر سال ایام محرم میں اس کی زیارت کر لیا کرو۔ یہ وہی امیر تیمور ہیں جنہوں نے ہزاروں انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگے اور شہر کےشہر ویران کردیے۔ شام پر اپنے حملے میں انہوں نے پورا دمشق شہر جلا دیا تھا۔ لیکن عتبات عالیہ کی زیارات سے ہر سال مستفید ہوتے تھے اور وہاں سے تبرک حاصل کرتے تھے جیسا کہ اختر گورگانی نے حیات تیمور میں اس کا زکر کیا ہے۔

امیر تیمور تزک تیموری میں لکھتا یے ۔ جب اس نے اذبک کو توران کے مقام پر شکست دی اور ماورا النہر کے تخت پر قابض ہوگیا تو ایک اہلسنت مولوی جو امیر تیمور کا سخت مخالف تھا اس نے رسول اکرم کو خواب میں دیکھا اور انہوں نے فرمایا کہ اگرچہ امیر تیمور سفاک ہے اور اس نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا ہے لیکن وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور میرے اہلبیت سے مودت رکھتا ہے ۔پھر تو کیوں اس کے خلاف لوگوں کو بھڑکاتا ہے؟ یہ خواب دیکھنے کے بعد مولوی خواجہ عبداللہ امیر تیمور کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر ان کا مطیع اور فرمانبردار رہا۔

ان کے بعد تاریخ میں ہمایوں کا ذکر ملتا ہے جن کو امام حسین سے خاص عقیدت تھی اور ان کے خادم بریا خان نے 959 ہجری میں زمرد ترشوا کر نقل ضریح مبارک امام حسین بنوائی تھی جس کا وزن چھیالیس تولہ تھا۔

ہندوستان میں اکثر لوگ جب زیارات مقدسہ کے لیے جاتے تھے تو واپسی پر لکڑی یا کسی اور دھات کی بنی نقل ضریح مبارک لایا کرتے تھے اور پھر عام عوام کو ان کی زیارت کروایا کرتے تھے۔ رفتہ رفتہ کچھ لوگوں نے اس کو معاش کا ذریعہ بنا لیا۔ ان کی عورتیں زنان خانوں میں ان اشیاء کو لے جاتی تھیں اور خواتین کو زیارت کرواتی تھیں۔ ان عورتوں کو “روضے والیاں” کہا جاتا تھا۔ خواہش مند خواتین ان پر نذر چڑھاتی تھیں۔ منتیں مانگتی تھیں۔ بہت کچھ انعام اکرام روضہ والیوں کو عطا کیا جاتا تھا۔

(جاری)

www.abujoanraza.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *