سلطنت فاطمیہ کے کے ایک حکمران المعز (341ھ تا 365ھ) نے 358ء میں مصر فتح کرلیا تھا۔ المعز فاطمی حکومت کا سب سے قابل حکمران تھا۔ وہ افریقہ سے مصر آگیا اور اسی نے قاہرہ کی بنیاد ڈالی۔ جسٹس امیر علی کے مطابق یہ وہ پہلا شخص تھا جس نے عزاخانہ کی بنیاد ڈالی۔ مراکش میں بھی دنیا کے اولین عزاخانے موجود ہونے کا دعوی کیا جاتا یے مگر وثوق سے کسی کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
دسویں صدی ہجری میں مملکت ایران کے سرکاری مذہب کے شیعہ ہوجانے کے بعد رسوم عزاداری میں بہت ترقی ہوئی۔ اہل تشیع کے ساتھ ساتھ اہل سنت بھی عزاداری میں حصہ لینے لگے۔ یہاں تک کہ ملا حسین کاشفی نقشبندی سبزواری کی کتاب ” روضتہ الشہداء ” منظر عام پر آئی۔ اس کو واعظ کاشفی نے فارسی میں تالیف کیا تھا۔ اس زمانے میں واقعات کربلا زیادہ تر عربی زبان میں کتابوں میں موجود تھے۔ یہ مقتل پر لکھی گئی فارسی میں ایسی پہلی کتاب تھی جس نے چار دانگ عالم شہرت پائی۔ زاکرین نے اس کتاب کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور اس کتاب سے واقعات کربلا بیان کرنا شروع کیے۔ اسی وجہ سے آج تک ایران میں زکر امام حسین کرنے والے کو “روضہ خواں” اور ذاکری کرنے کو “روضہ خوانی” کہا جاتا ہے۔
روضتہ الشہداء وہ کتاب ہے جس نے بدعات و خرافات کے اجراء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس میں لکھے گئے واقعات جیسے نکاح جناب قاسم، امام حسین کا شان و شوکت سے مدینے سے نکلنا اور ایک بیٹی فاطمہ صغری کو مدینے میں چھوڑنا، جناب فضہ کا شہداء کی لاشوں کی حفاظت کے لیے ابوالحارث نامی ایک شیر کو بلانا، زعفر جن کا میدان کربلا پہنچنا وغیرہ سب مجہول و بلا سند ہیں۔
اس کتاب نے ایران کے علاوہ دوسرے ممالک جیسے عراق ، ترکی ، افغانستان اور ہندوستان میں بھی شہرت پائی۔ ترکی میں عزاداری کرنے والے فارسی سے نابلد تھے اس لیے ایک عالم محمد بن سلیمان بغدادی فضولی نے روضتہ الشہداء کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا اور اس کا نام حدیقتہ السعداء رکھا۔
دوسرے لفظوں میں من گھڑت کہانیاں سے آراستہ یہ کتاب جہاں گئی وہاں اس نے خرافات کی بنیاد ڈالی۔
یہ درست ہے کہ اس کتاب کی لغویات کی طرف علماء جیسے حاجی نوری اور شہید مرتضی نے اشارہ کیا، مگر یہ کام بہت دیر سے ہوا۔ تب تک اس کتاب کے جھوٹے قصے لوگوں کے زہنوں میں رچ بس گئے تھے اور بہت سے نئے لکھنے والوں نے اس کتاب سے واقعات کربلا کو اپنی کتابوں میں نقل کیا۔ یہاں تک کہ خرافات لوگوں میں ایسی فروغ پاگئیں کہ کہیں کوئی اعتراض ہوا بھی تو علماء کی خاموشی کی طرف اشارہ کر کے صرف نظر کر لیا گیا۔
عوام میں اس کتاب کی شہرت نے مختلف رسومات کو بھی جنم دیا۔ قاسم کی مہندی، زعفر جن کی شبیہ کا برآمد ہونا، کسی شخص کا شیر کی نقلی کھال پہن کر حرم امام حسین میں گشت کرنا جیسی حرکات وغیرہ عوام میں رواج پاگئے۔
بدعت کبھی بھی منجمد نہیں رہتی بلکہ پھلتی پھولتی ہے۔ جیسا کہ بعد کے ادوار میں زعفر جن کا شجرہ نسب بھی دریافت کرلیا گیا۔ اس کے نام کی مجالس، نوحہ خوانی اور فاتحہ کا انعقاد ہونے لگا۔
کسی نے یہ نہیں سوچا کہ کربلا میں جنات کی آمد اور گفتگو کی لفظ بہ لفظ رپورٹنگ کون کر رہا تھا؟ مزید یہ کہ زعفر جن کے ساتھ اس کی باقی کی زندگی کس راوی نے گزاری جس نے عام لوگوں کو بتایا کہ زعفر جن دار فانی سے دار بقاء کی طرف منتقل ہوگئے ہیں اب ان کی بھی مجلس اور فاتحہ خوانی کروانی چاہیے۔
کچھ دیندار علماء نے محسوس کیا کہ عزاداری کے نام پر آئے دن نت نئی رسومات کا اضافہ ہورہا ہے تو انہوں نے دبے الفاظ میں تنبیہ کی اپنی سی کوشش کی جیسے مرزا ابو عبداللہ زنجانی نے اپنی کتاب عظمت علی میں لکھا کہ ” ہمیں چاہیے کہ دیدہ بصیرت و نگاہ سے یہ دیکھیں کہ امام معصوم کی شہادت عقیدہ توحید و عدل کو زندہ کرنے اور اس کی حفاظت کے لیے واقع ہوئی تھی”۔
لیکن نقار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟
(جاری)
www.abujoanraza.com