جیسا پہلے بیان کیا گیا تھا کہ شاہ اسماعیل صفوی کے دور حکومت میں شیعہ مذہب ایران کا سرکاری مزہب قرار پایا تھا۔ صفوی خاندان صوفی منش لوگ تھے اور مذہب کی طاقت کو استعمال کرنا بخوبی جانتے تھے۔ انہوں نے ائمہ کی ضریحوں کی سجاوٹ اور مراسم عزاداری پر بے دریغ مال خرچ کیا۔ ان کو علماء کی تائید بھی حاصل تھی اور علماء ان کی بری حرکات سے صرف نظر کرتے تھے۔ شاہ کے جبر کے خلاف جن شیعہ علماء نے آواز اٹھائی ان کو تلوار نے خاموش کردیا تھا۔
شاہ اسماعیل نے ائمہ کے روضوں کے صحنوں میں ابریشم کے قالین بچھوائے، اور سونے اور چاندی کی قندیلیں حرم کے لیے وقف کر دیں۔تعمیراتی کام انجام دئیے اور حرم کے خادمین کے لئے تنخواہیں مقرر کیں۔ اس کے علاوہ امام زادوں کی قبور پر ضریح نصب کروائیں۔
وہ آزاد اور آخرت پر نگاہ رکھنے والے لوگ جن کو سونے چاندی سے کوئی لگاؤ نہ تھا ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد سونے کے چراغدان ان کی قبور کو ہدیہ کیے گئے اور عوام کے پیسے سے سونا چاندی اور ایسے بیش قیمت نوادرات ان کے حرم کی زینت بنے جن کی قیمت کا آج کے دور میں اندازہ لگانا مشکل ہے۔ یہ کام شاہ اسماعیل صفوی شراب خوار ہو یا نادر شاہ افشار جیسے ظالم لوگ ، سب نے انجام دیے۔
یہ دوغلی ذہنیت تھی جو ابوذر غفاری کی سادگی اور سونے چاندی سے علی اعلان نفرت کا پرچار کرنے والے لوگوں سے ظاہر ہوئی۔
شاہ اسماعیل صرف ایک دنیاوی اور عمومی بادشاہ ہی نہیں تھا بلکہ اسے ایک ایسا مرشد کاملی سمجھا جاتا تھا جو نور الہی و ذات الوہیت کا مظہر تھا۔ ایسا مانا جاتا تھا کہ وہ زمین پر ائمہ کی نیابت علماء کی پشت پناہی سے انجام دے رہا ہے۔ اس وجہ سے اس نے دوسرے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی شروع کی۔ اس وقت عثمانی خلافت ان کے سامنے ایک بڑا چیلنج تھی۔ شاہ اسماعیل کو اس کی فتوحات نے غرورمیں مبتلا کر دیا تھا۔ اس نے ایک عثمانی شہزادے مراد کو پناہ دی اور سلطان سلیم عثمانی کو تخت سے اتار کر شہزادہ مراد کو اس جگہ تخت پر بٹھانے کی تیاریاں شروع کر دیں۔ شاہ اسماعیل کی اس ناعاقبت اندیشی نے اس کو سلطان سلیم سے ٹکرادیا۔ ایران اور ترکی کی موجودہ سرحد پر ترکی کی حدود میں واقع ایک مقام چالدران کے پاس 1514ءمیں دونوں میں خونریز جنگ ہوئی جو تاریخ میں جنگ چالدران کے نام سے مشہور ہے۔ ایرانیوں نے بڑی شجاعت سے ترکوں کا مقابلہ کیا۔ لیکن ترکوں کی کثرت تعداد، توپ اور آتشیں اسلحے اور سلطان سلیم کی فوجی مہارت کے سامنے ایرانی بے بس ہو گئے۔ ان کو شکست فاش ہوئی ، 25 ہزار ایرانی مارے گئے اور شاہ اسماعیل زخمی ہوکرفرار ہونے پر مجبور ہوا۔ سلطان سلیم نے آگے بڑھ کر دار الحکومت تبریز پر بھی قبضہ کر لیا۔ سلیم کی واپسی پر تبریز اور آذربائیجان تو صفوی سلطنت کو واپس مل گئے لیکن دیار بکر اور مشرقی ایشیائے کوچک کے صوبے ہمیشہ کے لیے صفویوں کے ہاتھ سے نکل گئے ۔
شاہ اسماعیل کو گھمنڈ تھا کہ اس کو تائید غیبی حاصل ہے کیونکہ وہ خادم الحرمین ائمہ ہے۔ لیکن اس کے لئے آسمان سے فرشتے اترے نہ ہی پردہ غیب سے کوئی ظاہر ہوا۔
اس واقعہ نے اس کا غرور خاک میں ملادیا۔ اس نے باقی عمر شراب نوشی میں گزار دی۔
(جاری)