تعزیہ کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ عراقی اسے شبیہ کہتے ہیں کیونکہ حادثہ کربلا کی نقل کے طور پر ان شبیہات کو پیش کیا جاتا ہے۔ جس سے اس واقعے کی یاد تازہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ایران میں صفوی دور میں اس کا آغاز ہوا تھا
علمائے کرام نے تعزیہ اور شبیہات کی اجازت دی اور اپنے فتاوی میں لکھا کہ اگر مقدسات کی ہتک نہ ہو اور جھوٹ منسوب نہ کیا جائے تو اشکال نہیں ہے۔
بدعات کی ابتداء ایسی ہی ہوتی ہے۔ ابتداء میں وہ رسوم یا ثقافت کے عنوان سے دین میں داخل ہوتی ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ مقدسات کا روپ دھار لیتی ہیں پھر قران اور حدیث سے ان کے وجود پر جواز تلاش کیے جاتے ہیں۔ ان کی حرمت کی خاطر لوگ اپنی جان نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں
قران کریم کی آیت وابتغو الیہ الوسیلہ مسلمانوں کے یہاں اتنی وسعت پاتی ہے کہ سارے تعزیے علم اور جھولے، درگائیں، مزار، نقلی ضریح اس میں سما جاتے ہیں۔نسلیں گزرتی ہیں پھر یہ مقدس اشیاء کمائی کا زریعہ اور ایک ایسا میڈیم بن جاتی ہیں جو کسی مقدس ہستی کے کان تک سائل کی آواز کو پہنچانے میں استعمال ہوتا ہے۔
آل بویہ کے زمانے تک عزاداری مخفی تھی۔چوتھی صدی سے پہلے،امام حسین علیہ السلام کی عزادری سرعام نہیں ہوتی تھی بلکہ گھروں میں ہوتی تھی۔ لیکن چوتھی صدی کے دوسرے نصف حصے میں عاشور کے دن عزاداری سرعام گلی کوچوں اور بازاروں میں ہوئی۔
ابن جوزی کہتا ہے کہ سال 352 میں معز الدولہ نے لوگوں کو جمع ہونے اور اظہار حزن کاحکم دیا۔اس دن بازار بند ہوگئے۔ خرید وفروخت کا سلسلہ رک گیا۔ قصا ئیوں نے گوسفند ذبح نہیں کیے۔ ہریسہ یعنی حلیم پکانے والوں نے حلیم نہیں پکائی،لوگوں نے پانی نہیں پیا۔ بازاروں میں خیمے اور ان پر علم لگائے۔ خواتین نے اپنے سر اور منہ کو پیٹا اور امام حسین علیہ السلام پر گریہ زاری کی۔
صفوی دور میں ماتم نے مذہبی شکل اختیار کی۔لوگ بہت زور سے اپنے سینے پر مارتے تھے۔اسی طرح بعض اقوال کے مطابق اصفہان جو صفوی شیعہ حکومت کا مرکز تھا، وہاں لوگ ایک دائرے نما شکل میں کھڑے ہو کر اپنے پاؤں زمین پر مارتے تھے اور ساتھ گول گھوم کر اپنے سینے پر ماتم کرتے تھے۔
قاچاری دور میں، بالخصوص ناصر الدین شاہ قاچار کے دور میں عزادار خاص آداب کے ساتھ کچھ فاصلے پر حلقے بنا کر نوحہ خوانی اور ماتم داری کرتے تھے یہاں تک کہ قاچاری کے محل کے اندر عورتیں بھی نوحہ خوانی اور ماتم داری کیا کرتی تھیں۔
شاہ اسماعیل اول نے پہلی بار مکتب اہلبیت کو ایران کا سرکای مذہب قرار دیا۔شاہ اسماعیل اول امام موسی کاظم علیہ السلام کے فرزند حمزہ کی نسل سے تھے۔
شاہ اسماعیل کی فوج کو “قزلباش” کہا جاتا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسماعیل کے باپ حیدر نے اپنے پیروؤں کے لئے سرخ رنگ کی ایک مخصوص ٹوپی مقرر کی تھی جس میں 12 اماموں کی نسبت سے 12 کنگورے تھے۔ ٹوپی کا رنگ چونکہ سرخ تھا اس لئے ترکی میں ان کو قزلباش یعنی سرخ ٹوپی والے کہا گیا۔
(جاری)
www.abujoanraza.com