عزاداری اور رسومات ایک جائزہ (1)

میرا دس سال کا سفر ہے جس میں مسلک تشیع میں پائے جانے والی خرافات پر میں نے مختلف اوقات میں آواز اٹھائی۔ فیس بک کو جواد رضوی اور اپنے مرحوم دوست فیصل لطیف کے ساتھ ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔

دس سال پہلے لوگ کسی معمولی اختلاف کو بھی برداشت نہیں کرپاتے تھے۔ بہت برا بھلا کہتے تھے۔

آہستہ آہستہ بہت سے لوگ سمجھے ہیں جس میں خدا کی عنایات کو ہی شامل سمجھا جاسکتا یے کیونکہ کسی کے دل میں ہدایت کا اترنا اللہ کے کرم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

اہل تشیع مسلک میں صفوی دور بہت تاریک دور گزرا ہے۔ خرافات کی جڑیں اسی دور میں پروان چڑھیں اور دوسرے ممالک میں اسی مسلک کے لوگوں میں سرایت کرگئیں جیسا کہ حاجی نوری نے لولو مرجان میں برصغیر سے ارسال کردہ ایک خط کے جواب میں لکھا کہ خرافات و بدعات کا اصل منبع ایران و عراق ہیں۔

بعد ازاں مرتضی مطہری اور علی شریعتی نے بھی عزاداری کے نام پر بدعات اور جھوٹ کو فروغ دینے کی مذمت کی۔ علی شریعتی کے حساب سے شیعت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ صفوی شیعت یے، ایک علوی شیعت ہے۔ صفوی شیعت میں صرف گریہ و زاری، ماتم داری اور رسومات کا احیاء ہوتا ہے۔ جبکہ علوی شیعت اصل میں ائمہ کے افکار سے نمو پاتی ہے اور تاریخی واقعات سے سبق حاصل کرتی ہے۔

برصغیر میں نوابان اودھ کے دور میں عزاداری اپنے عروج کو پہنچی۔ اور سوگ محرم کے ابتدائی دس دن سے بڑھا کر اربعین تک منایا گیا۔ پاکستان میں شیعہ عوام آٹھ ربیع الاول تک سوگ مناتی ہے اور نو ربیع الاول کو سوگ بڑھا دیا جاتا ہے۔

(جاری)

www.abujoanraza.com

1

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *