میری وائف گزشتہ دنوں اپنے بیمار بھتیجے کی وجہ سے چھ دن این آئی سی ایچ میں رہیں۔ وہاں بھانت بھانت کے لوگوں سے ان کا واسطہ پڑا۔ کسی کو موبائل چلانا نہیں اتا تھا تو کوئی ڈاکٹر کی ہدایات کو سمجھ نہیں پاتا تھا۔ انہوں نے کوشش کی کہ جتنا ہوسکے وہاں موجود خواتین کی مدد کی جائے۔
ایک بات جو انہوں نے مجھے حیرت انگیز بتائی وہ یہ تھی کہ بہت سی خواتین اپنے بچے پیدائش کے بعد اسپتال میں ہی چھوڑ کر چلی جاتی ہیں۔ وجہ معاشی حالات اور شوہر کی عدم دلچسپی ہوتی ہے۔ بچے کو سرکاری اسپتال والے اپنے طریقہ کار کے مطابق ایدھی سینٹر کے حوالے کرتے ہیں۔
کچھ خواتین ایسی تھیں جو آپریشن سے بچہ ہونے کے باوجود اسپتال میں بھاگ دوڑ کرتی نظر آئیں اور کوئی ان کے ساتھ نہ تھا ۔ وجہ یہ تھی کہ شوہر نفاست پسند انسان ہے اس کو سرکاری اسپتال میں صفائی ستھرائی کا فقدان نظر آتا ہے جو اس کی طبع نازک پر گراں گزرتا تھا اس لیے اسپتال میں رک نہیں سکتا تھا۔ لیکن معاشی حالات کی وجہ سے پرائیوٹ اسپتال میں علاج بھی نہیں کرواسکتا تھا۔ مجبورا سرکاری اسپتال میں نومولود بچے کو بیوی کی ذمہ داری پر چھوڑ کر گھر میں بیٹھا ہوا تھا۔
اسپتال میں انسان دوسروں کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا غم بھول جاتا یے۔ لوگ ایک دوسرے کے کام آنے کی کوشش کرتے ہیں اور سب کے لیے خلوص سے دعا کرتے ہیں۔
میری وائف کا کہنا تھا کہ اہل تشیع خواتین صرف مولا مولا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر مولا عباس شفاء دیں گے۔ مولا حسین سے یہ بچہ مانگا ہے ، انہوں نے دیا ہے اب وہی شفاء بھی دیں گے۔ جناب علی اصغر کا صدقہ ہے یہ بچہ، اس کو ان سے منسوب کیا ہے اب وہی اس کی حفاظت کریں گے
مجھے یاد ہے کہ میں ایک ادارے میں نوکری کرتا تھا وہاں ایک ریسپشنسٹ تھی اور اس کا ہمارے ایک ساتھی کولیگ رضوان جو شیعہ تھا سے افئیر چل گیا تھا۔ دونوں شادی کرنا چاہتے تھے۔ لڑکا کراچی کے ایک مشہور مولانا کا سگا بھانجا تھا۔
ایک دن اس ریشپشنسٹ نے مجھ سے پوچھا کہ آپ جب بھی کوئی مستقبل کی بات کرتے ہیں یا دعائیہ کلمات کہتے ہیں تو تو اللہ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جبکہ رضوان ہمیشہ کہتے ہیں۔ مولا دیں گے، مولا وارث ہیں، مولا سب ٹھیک کردیں گے۔ آپ دونوں ایک ہی کمیونٹی سے تعلق رکھتے ہیں تو گفتگو میں یہ تضاد کیوں؟
میں نے اس وقت تو بادشاہ کی بخشش اور وزیر کی مدد کی مثال دیکر اس کو مطمئن کردیا تھا۔ مگر مجھے اندازہ ہوا کہ عام لوگ بھی ان باتوں کو محسوس کرلیتے ہیں۔
ایک خاتون سے میری وائف کی گفتگو ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ لوگ خدا اور حضرت علی دونوں کے درمیان فرق روا رکھتے ہیں، کچھ بڑھا دیتے ہیں وہ بھی غلط ہے اور کچھ کم کردیتے ہیں وہ بھی غلط ہے ۔ میری وائف نے حیرت سے پوچھا کہ کیا اللہ کے برابر حضرت علی کو مانا جائے ؟ تو ان خاتون نے بڑے وثوق سے جواب دیا کہ بالکل، علی مظہر کبریا ہیں یعنی اللہ کے برابر ہیں۔ اس لیے بہتر عقیدہ یہی ہے کہ ان کو اللہ کے برابر مانا جائے۔
اہل تشیع کے یہاں مجالس علم پھیلانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ لوگ بن بلائے آتے ہیں اور ہر سال لوگوں کی ایک بڑی تعداد مجالس میں شرکت کرتی ہے۔ یہ توحید و معرفت الہی پھیلانے اور غلو و شرک سے بچانے کا بہترین زریعہ ہوسکتی تھیں لیکن افسوس کہ منبر پر ناہنجار اور جاہل ذاکرین کا قبضہ ہے۔ جس کی وجہ یہ مکتب پاکستان میں آلودہ ہے۔ کاش کہ منبر سے علم کلام کے مباحث کے بجائے اللہ کی معرفت کی طرف توجہ کروائی جاتی تو شرک اور غلو آمیز گفتگو اور افعال عام عوام میں نہ پائے جاتے۔
میرے استاذ کہتے تھے کہ شدید مشکل اور پریشانی میں انسان کی نگاہ سب سے پہلے جہاں جاتی ہے، وہیں اس کا الہ ہے۔
“اور اس شخص سے بڑھ کر کون گمراہ ہوسکتا ہے ،جو ایسے کو پکارے جو قیامت تک اسے جواب نہ دے سکے اور ان کو ،ان کے پکارنے کی خبر نہ ہو اورجب لوگ جمع کئے جائیں گےتو وہ ان کے دشمن ہوں گے اوران کی پرستش سے انکار کریں گے۔”
(سورہ احقاف آیت 46)
اللہ ہمیں شرک اور غلو سے محفوظ فرمائے۔
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com