میری والدہ کی زندگی صبر و قناعت سے عبارت تھی۔ بہت زیادہ بہترین لباس کا شوق نہیں تھا۔ کبھی بیوٹی پارلر کے چکر لگاتے نہیں دیکھا۔ مجھے یاد ہے کہ میری شادی پر ہی وہ پارلر گئی تھیں۔ ان کی ساتھی اسکول ٹیچر اور ان کی دوست ہر مہینے فیشل وغیرہ کروانے بیوٹی پارلر جاتی تھیں اور میری والدہ کو بھی ترغیب دیتی تھیں۔ میری والدہ کا کہنا تھا کہ میں پیسے اپنے بیٹے کے لیے بچاتی ہوں۔ تاکہ اس کی فرمائشیں پوری کرسکوں اور اس کو باپ کی کمی کا احساس نہ ہو۔
میری والدہ کی دوست اور ساتھی ٹیچر کے شوہر ملازمت نہیں کرتے تھے اور گھر ان کی بیوی کی کمائی پر چلتا تھا۔ وہ اپنے دونوں لڑکوں کے لاڈ بہت اٹھاتی تھیں۔ اور کوئی کام نہیں کرنے دیتیں تھیں۔ وہ اسکول نہیں جاتے تھے تو باپ کی ہمت نہیں تھی کہ اولاد پر سختی کرسکیں یا پوچھ گچھ کرسکیں۔
اس معاملے نے میری والدہ پر نفسیاتی اثر پیدا کیا۔ وہ مجھے میرے اسکول کے زمانے سے نوکری کی ترغیب دیتی تھیں کہ مرد کو بیکار نہیں بیٹھنا چاہیے۔ اس کو کام کرنا چاہیے ۔ یہی وجہ تھی کہ میں نے میڑک کے بعد سے ٹیوشن اور کوچنگ سینٹرز میں پڑھایا۔ اسکول میں بھی ٹیچر کی نوکری کی۔
ہمارا گھر علاقے کے اولین رہائشی گھرانوں میں شمار ہوتا تھا۔ میرے والد بھی گورنمنٹ ٹیچر تھے اور شام میں بچوں کو گھر پر تعلیم بھی دیتے تھے۔ والدہ علاقے کے ہی گورنمنٹ اسکول میں پڑھاتی تھیں۔ اس وجہ سے مجھے علاقے میں سب جانتے تھے اور میں “عذرا مس کا لڑکا ” کے عنوان سے معروف تھا۔
یہ والدین کی نیک نامی اور حلال کمائی کا اثر تھا کہ میں نے کبھی کنچے کھیلے نہ گلی ڈنڈا۔ اور سگریٹ پان وغیرہ سے کوسوں دور رہا۔ ایک خوف یہ دامن گیر رہتا تھا کہ کسی بھی قسم کی غلط حرکت امی سے چھپی ہوئی نہیں رہ سکتی۔ کوئی نہ کوئی والدہ کو شکایت کر دے گا۔
یہ کامیابیاں عزت یہ نام تم سے ہے
اے میری ماں مرا سارا مقام تم سے ہے
تمہارے دم سے ہیں میرے لہو میں کھلتے گلاب
مرے وجود کا سارا نظام تم سے ہے
گلی گلی میں جو آوارہ پھر رہا ہوتا
جہان بھر میں وہی نیک نام تم سے ہے
والدہ سے میں نے اللہ سے ہر مشکل میں لو لگانا اور دو رکعت نماز کو ہر مصیبت کا حل سمجھنا سیکھا۔ سورہ یسین اور دو رکعت نماز ان کے لیے ہر مشکل کا حل تھی۔
17 دسمبر 2012 ان کی وفات کا دن تھا۔ لگتا ہے کل ہی بات ہے۔ دعاگو ہوں پروردگار ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے
زندگانی تھی تری مہتاب سے تابندہ تر
خوب تر تھا صبح کے تارے سے بھی تیرا سفر
مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
ابو جون رضا