(گزشتہ سے پیوستہ)
آج کل ٹیکنالوجی نے انسان کے لئے آسانی کے ساتھ ساتھ تنہائی کا تحفہ مفت میں فراہم کیا ہے۔ یہ تنہائی انسان کو دھیرے دھیرے خود پسندی اور نفسیاتی مسائل کی طرف دھکیلتی ہے۔
ماہرین کےمطابق تنہائی کی وجہ سے انسان کے مختلف نفسیاتی امراض میں گرفتار ہوجانے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
تنہائی ، ڈمینشیا یعنی بھولنے کا مرض، متعدی امراض وغیرہ بھی انسان کے رویے پر منفی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ انسان کو سوچنے سے نہیں روکا جاسکتا لیکن کچھ باتوں کو نئی نسل کو زہن نشین کروانا معاشرے کے دانشور افراد اور خاص کر اساتذہ کا فرض ہے ۔ جن میں خود پر یقین، ناکامی کو اعتماد سے جھیلنا، اور مسائل کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے جیسے امور شامل ہیں۔
ایک اور توجہ طلب معاملہ یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے کو معاشرہ انتہائی گنہگار سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ اس کی نماز جنازہ اور غسل و کفن کو بھی درست نہیں سمجھا جاتا جبکہ یہ بالکل ایک غلط فکر ہے۔ نماز جنازہ اور غسل و کفن اصل میں اکرام آدمیت ہے۔ اور اس کو فرض کفایہ قرار دیا گیا ہے یعنی ایک مردہ انسان کی تجہیز و تکفین کرنا لوگ پر ضروری یے اور اگر کچھ لوگ اس کام کو انجام دے رہے ہوں تو معاشرے کے دوسرے لوگوں پر سے یہ فرض ہٹ جاتا ہے۔
جن مردوں کا غسل دینا واجب ہے ان میں مسلمان میت پر سب فقہاء کا اتفاق ہے۔ یہاں تک کہ امام شافعی کے مطابق اس میں کوئی حرج نہیں کہ کوئی مسلمان اپنے کافر رشتے دار کو غسل دے اور تدفین کرے۔ یہی امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے۔ اسی طرح سے اکثر اہل علم کا اجماع ہے کہ کلمہ شہادت کا اقرار کرنے والے ہر شخص کی نماز جنازہ جائز ہے۔
(بدایتہ المجتہد ، ابن رشد، باب 2، صفحہ 315)
مذاہب اربعہ میں اس بات پر اتفاق ہے کہ خودکشی کرنے والا دین سے خارج نہیں ہوتا اس لیے خودکشی کرنے والے کو غسل دیا جائے، اس کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس کے لیے دعائے مغفرت بھی کی جائے گی۔
نبی کریم کا جہاں تک تعلق پے آپ نے اس غیرشرعی عمل کی حوصلہ شکنی کرنے کی غرض سے خودکشی کرنے والے کی نماز جنازہ ادا کرنے سے انکار فرمایا۔ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
“نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک شخص لایا گیا جس نے اپنے آپ کو ایک تیر سے ہلاک کر لیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی”
(مسلم، الصحیح، كتاب الجنائز، باب ترك الصلاة على القاتل نفسه، 2: 672، رقم: 978)
اس عمل کے جواز کے قائل فقہا کہتے ہیں کہ نبی کریم نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ میں شرکت نہیں فرمائی مگر صحابہ کرام کو اجازت دی کہ اس کی نماز جنازہ ادا کریں۔ دراصل نبی کریم کا یہ عمل خود كشى سے کراہیت پر محمول ہے۔ جس طرح سے نبی کریم كے حكم سے صحابہ كرام نے مقروض كى نماز جنازہ ادا كى مگر آپ اس میں شریک نہیں ہوئے۔ يہ بھی قرض سے کراہیت دلانے كے ليے تھا۔ اس ليے نہيں كہ مقروض كافر ہو گیا تھا۔
فقہائے احناف کا مؤقف بھی یہی ہے کہ خودکشی کرنے والے کو غسل دے کر اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ علامہ محمد بن علی فرماتے ہیں:
“جس نے اپنے آپ کو قتل کر دیا اگرچہ جان بوجھ کر ہو، اسے غسل دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، اسی پر فتوی ہے”
(حصكفي، الدرالمختار، 2: 211، بيروت: دار الفكر)
ایک صحیح روایت میں ہے کہ امام جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ
” اگر شرابی ، زانی اور چور مرجائیں تو کیا ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے؟ آپ نے فرمایا “جی ہاں”
اسی طرح ایک دوسری موثق روایت میں امام جعفر صادق اپنے والد امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا
” اہل قبلہ (مسلمانوں) میں سے جو بھی مرے اس پر جنازہ پڑھو اور اس کا حساب اللہ پر چھوڑ دو”
(استبصار ، شیخ طوسی جلد اول صفحہ 806)
آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی خود کشی کے حوالے سے پوچھے گئے ایک استفتاء کے جواب میں فرماتے ہیں
” یقیناً خودکشی گناہ کبیرہ ہے اور انسان کا اپنے نفس کا مالک ہونا خودکشی کی دلیل نہیں بن سکتا، ایسے ہی جیسے کہ انسان کا اپنے اموال کا مالک اس میں آگ لگانے کی دلیل نہیں ہوسکتا ہے البتہ ایسے اشخاص کے لئے تمام رسومات دیگر عام مسلمانوں کی طرح انجام دیئے جائیں اور ان کی نجات کی دعا کی جائے شاید عفو الٰہی ان کے شامل حال ہوجائے “
(آفیشل ویب سائٹ آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی ، سوال و جواب)
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں غیر شرعی عوامل سے محفوظ فرمائے اور لوگوں میں امید بانٹنے کی توفیق عطا فرمائے
ابو جون رضا