کاپوس اور مسلم

ہٹلر کی نازی آمریت کے دوران جرمن فوج نے یہودیوں سمیت دیگر سیاسی مخالفین کے لیے مختلف مقامات پر سات اذیتی مراکز قائم کیے تھے، جن میں آؤشوٹس سب سے بڑا کيمپ تھا۔آؤشوٹس کيمپ پولینڈ کے جنوبی شہر کراکو سے پچاس کلو میٹر مغرب میں واقع ہے۔ ہٹلر کے پولینڈ پر قبضے کے بعد 1940ء سے 1945ء تک وہاں لاکھوں لوگوں کو موت کی نیند سُلادیا گیا۔ ان لوگوں میں اکثریت یورپ بھر سے چن چن کر لائے گئے یہودی خاندانوں کی تھی۔

ہٹلر اور دوسرے نازی سربراہوں کے لئے یہودی ایک مذہبی گروہ نہيں تھے، بلکہ وہ ایک زہریلی “نسل” تھے، جو دوسری نسلوں کا “خون چوس کر” انہيں کمزور کردیتے تھے۔

جرمنوں نے مقبوضہ یورپ کے ہر کونے سے یہودیوں کو پولینڈ کے حراستی کیمپ میں جلاوطن کردیا جہاں انہيں باقاعدہ طریقے سے قتل کردیا جاتا تھا اور انہیں جبری مشقت کے لئے بھی بھرتی کرلیا جاتا تھا- جسے “کام کے ذریعے ہلاکت” بھی کہا جاتا تھا۔

ہزاروں یہودیوں کے اس کیمپ کو منظم رکھنے کے لیے چند سو جرمن نازی فوجی کافی نہیں ہوسکتے تھے۔ اس وجہ سے نازیوں نے قیدیوں میں سے تگڑے اور کارآمد قسم کے لوگوں کا انتخاب کیا۔ ان کا کام یہ تھا کہ وہ قیدیوں پر نظر رکھیں۔ ان سے جبری مشقت کروائیں اور اس کے بدلے میں ان کو بیرک کے بجائے علیحدہ کمرہ اور اچھا کھانا ملتا تھا۔ ان نگران افراد کو ” کاپو” یا “کاپوس” کہا جاتا تھا۔ کاپوس نے نازی کیمپ کے نظام کو برقرار رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کیا کیونکہ ایسے نظام کے اندر قیدیوں کی ایک بڑی تعداد کو مستقل نگرانی کی ضرورت رہتی تھی۔ جو کاپوس انجام دیتے تھے۔ زیادہ تر کاپوس کو قیدی ورک گینگ کا انچارج بنا دیا گیا تھا۔ یہ کاپوس کا کام تھا کہ بیمار قیدیوں کو جبری مشقت پر مجبور کریں۔ ان کاپوس نے اپنے ہی ہم مذہب لوگوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے۔ چونکہ ان کے عہدے کا انحصار نازیوں کے اطمینان پر تھا اس لیے بہت سے کاپوس نے اپنے ساتھی قیدیوں کے خلاف اپنی مراعات یافتہ عہدوں کو برقرار رکھنے کے لئے انتہائی اقدامات کیے۔ اور قیدیوں پر ہر ظلم روا رکھا۔

دوسرے لفظوں میں یہودیوں پر یہودیوں نے ہی ظلم کیا۔

جب قیدیوں میں سے کوئی شخص انتہائی سخت بیمار پڑ جاتا تھا یا کسی وجہ سے کام کے لائق نہیں رہتا تھا تو ان کو ایک الگ عنوان کی حیثیت دی جاتی تھی اور ان کو حقارت سے ” مسلم” یا “مسلمان” کہا جاتا تھا۔ یعنی ایسا شخص جس کی غیرت و حمیت اس سے جدا ہوگئی ہو اور وہ زندہ لاش ہو۔

جو لوگ مسلم کیٹیگری میں داخل ہوجاتے تھے ان کی ہر امید دم توڑ دیتی تھی۔ کیونکہ چند ہی دنوں میں ان کو گیس چیمبر میں ڈال کر مار دیا جاتا تھا۔

“کِیُونکہ جِس کے پاس ہے اُسے دِیا جائے گا اور جِس کے پاس نہِیں ہے اُس سے وہ بھی لے لِیا جائے گا جو اُس کے پاس ہے”

(متی باب 13)

جس وقت ان نازی کیمپس میں بچے بوڑھے اور جوانوں پر ظلم کا سلسلہ جاری تھا، ہر ایک قیدی کی زبان وظائف اور تورات کی تلاوت سے مملو رہتی۔ ان کو انتظار تھا کہ خدا ان کو بچانے کے لیے آسمان سے براہ راست مدد بھیجے گا اور وہ نجات دہندہ جس کے آنے کا وعدہ ہے وہ ظہور کرے گا۔

ایک گروپ کے بعد دوسرا انسانی گروپ گیس چیمبرز کی طرف روانہ کیا جاتا اور پیچھے رہ جانے والے قیدیوں کے وظائف میں تیزی آجاتی۔ وہ اور شدت سے اپنے نجات دہندہ کو پکارنے لگتے لیکن کوئی نہ آیا اور ایک بڑی تعداد ان یہودیوں کی موت کے گھاٹ اتر گئی۔

یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے سربوں کے ظلم کی وجہ سے بوسنیائی مسلمانوں کی بڑی تعداد کو ایک کیمپ میں رہنا پڑا تھا اور پھر ایک دن سربرنیکا کے کیمپ میں صرف بچے اور عورتیں رہ گئے تھے کیونکہ ان کے مرد علیحدہ کر کے موت کے گھاٹ اتار دیے گئے تھے۔

اس کیمپ میں بھی درود و وظائف پڑھے جاتے اور دجال کی تباہی کے لیے پردہ غیب سے مہدی کے ظہور کی دعا کی جاتی۔ ہر کوئی معجزہ کا طلبگار ہوتا تھا

یہاں تک کہ کیمپ میں رہنے والے مسلمان قیدی، یہودیوں کی طرح یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے کہ آخر خدا کو ہم پر رحم کیوں نہیں آتا؟

کاپوس کے بارے میں جب سوچتا ہوں تو یہی خیال آتا ہے کہ مسلمانوں کا حال بھی آج ان قیدی یہودیوں جیسا ہے جن پر ان کے ہم مذہب مسلط کر دیئے گئے تھے۔ ان کاپوس مسلمانوں نے سب بیچ کھایا ہے۔ عزت حمیت خود داری سب ختم ہوگئی ۔ رہ گئی ہیں تو بس چند روایات ، جن کے سہارے نام نہاد مذہب کی عمارت کھڑی ہے جو اندر سے اتنی کھوکھلی ہے کہ ایک اینٹ نکالو تو پوری عمارت گرنے کا خدشہ ہوتا ہے۔

علماء ، عوام سب کھڑے عمارت کی خستگی کا نظارہ کر رہے ہیں مگر سب کو اپنے رزق و معاملات کی فکر ہے۔ کوئی کیوں دکھ جھیلے؟ کوئی کیوں فکر کرے؟ اکرام آدمیت تو ختم ہوگئی۔

مطلبی دنیا میں ہے گم ابن آدم اس قدر
کام ہونا چاہیے ، بس کام ہونا چاہیے

کیوں بھلا ابلیس کو الزام دیتے ہو فقط
تم کو خیر و شر کا بھی الہام ہونا چاہیے

ابو جون رضا

3

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *