جناب سکینہ کے حوالے سے ہر سال صفر کی مجالس میں زندان میں ایک بچی کے وفات پاجانے کا ذکر کیا جاتا ہے۔ معلوم نہیں یہ کذب اور افتراء کہاں سے کتابوں میں در آیا ۔ لیکن اس نے ایسی جڑیں پکڑی ہیں کہ اب حقیقت بات کا بتانا بھی مشکل ہے۔
مجھ حقیر طالب علم سے ہر سال ہی اس حوالے سے سوال ہوتا ہے۔ اور میرا ایک ہی جواب ہے جو آیت اللہ نجفی صاحب نے اپنی کتاب “سعادت الدارین فی مقتل حسین” میں درج کیا ہے۔
’’اس سے بھی زیادہ مشہور مگر سراسر کذب و افترا وہ روایت ہے جس میں درد انگیز پیرایہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ جناب سکینہ نے زندان شام میں رحلت کی حالانکہ تمام مورخین و علمائے انساب کا اتفاق ہے کہ آپ عرصہ دراز تک زندہ رہیں اور واقعہ کربلا سے ۵۷ برس کے بعد ۱۱۷ ہجری میں وفات پائی۔ آپ کا عقد واقعہ کربلا سے پہلے عبداللہ بن حسن بن علی بن ابی طالب کے ساتھ ہو چکا تھا۔ جیسا کہ ناسخ التواریخ، محسن الابرار، ارشاد شیخ مفید، بحارالانوار، اغانی، کشف الغمہ، سیر الآئمہ، عمدۃ الطالب، اعلام الوریٰ، قمقام ذخار، مراۃ الجنان، اسعاف الراغبین، وفیات الاعیان، تاریخ کامل وغیرہم میں صاف درج ہے۔‘‘
جو لوگ ہر سال اس قضیے کو لیکر سینہ کوبی اور آہ و فغاں کرتے ہیں ان کے خلوص میں کوئی شبہ نہیں۔ اگر وہ سمجھتے ہیں تاریخی واقعات کی انہوں نے جانچ کی ہے اور ان کے نزدیک یہ بات ثابت ہے کہ جناب سکینہ نامی کوئی بچی زندان شام میں انتقال کرگئی تھی تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ یہ ضرور ہے کہ ان سے ادب سے گزارش کروں گا کہ جن لوگوں کے نزدیک یہ بات ثابت نہیں ہے ان کو برا بھلا یا بھٹکا ہوا نہ کہیں۔ جس طرح سے آپ کو تحقیق کرنے اور کسی بات کو تسلیم کرنے کا حق حاصل ہے اسی طرح کسی دوسرے کو تحقیق سے کسی بات کو رد کرنے کا حق حاصل ہے۔ یہ کوئی دین و ایمان کا مسئلہ نہیں ہے۔
تحقیق کہ امام حسین کی دو بیٹیاں تھیں جن میں ایک فاطمہ ہیں اور دوسری جناب سکینہ ہیں۔ یہ دونوں کربلا میں موجود تھیں۔ جناب سکینہ کے خطبے بھی تاریخ میں موجود ہیں۔ اور واقعہ کربلا کے بعد ان کا زندہ رہنا اور سن 117 ہجری میں وفات پانا بھی تاریخ میں نقل ہوا ہے۔
شام کا مزار کسی مجہول شخصیت کا ہے جس کی نسبت قطعی طور پر کسی کی طرف کرنا مشکل ہے۔
میں سوچتا ہوں کہ قیامت میں لوگوں کو پتا چلا کہ جناب سکینہ واقعہ کربلا کے بعد زندہ تھیں اور ان کی شادی بھی ہوئی تھی تو ان کا کیا حال ہوگا؟
اللہ ہم سب کو دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات و خرافات سے دور فرمائے
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com