الفاظ کس طرح سے انسان کو زخمی کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ آپ کو اس وقت ہوگا جب آپ کی بیوی ایک موٹی سی ڈکشنری آپ کے سر پر دے مارے۔
یہ تو ازراہ تفنن ایک جملہ تھا لیکن الفاظ انسان کو ہوش و خرد سے بیگانہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی تاریخی شخصیت کی شان میں پڑھے جانے والے قصائد سنیے. انسان کو ایسا جکڑتے ہیں کہ یہ جاننے کے باوجود کہ اس کو تاریخ کی اصل سے کوئی لاحقہ نہیں ہے، عقل و دانش کے کھونٹے سے انسان الگ ہوجاتا ہے۔
ان طرب انگیز محافل سے یہ رزمیہ شاعری اور آواز کی نغمگی ہٹا کر دیکھیے۔ ان میں کچھ نہیں بچے گا ۔
اصل میں شاعری کے فسوں میں انسان بہہ جاتا ہے۔ مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب شاعری سے تاریخ اخذ کی جانے لگتی ہے۔ اس کے بعد تحلیل و تجزیہ اور افہام و تفہیم کی راہ دم توڑ دیتی ہے۔
اب یہ کلام و ادا کے غمزے ہی مذہبی محافل کی جان ہیں۔ جن سے وابستہ افراد اپنی گل افشانی گفتار کو مذہبی فریضہ سمجھ کر انجام دیتے ہیں۔
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
ابو جون رضا