محمد بن يحيى وأحمد بن محمد، عن محمد بن الحسن عن إبراهيم بن هشام عن عمرو بن عثمان، عن إبراهيم، بن أيوب، عن عمرو بن شمر، عن جابر، عن أبي جعفر عليه السلام قال:
بينا أمير المؤمنين عليه السلام على المنبر إذ أقبل ثعبان من ناحية باب من أبواب المسجد، فهم الناس أن يقتلوه، فأرسل أمير المؤمنين عليه السلام أن كفوا، فكفوا وأقبل الثعبان ينساب حتى انتهى إلى المنبر فتطاول فسلم على أمير المؤمنين عليه السلام فأشار أمير المؤمنين عليه السلام إليه أن يقف حتى يفرغ من خطبته ولما فرغ من خطبته أقبل عليه فقال:
من أنت؟
فقال: أنا عمرو بن عثمان خليفتك على الجن وإن أبي مات وأوصاني أن آتيك فأستطلع رأيك وقد أتيتك يا أمير المؤمنين فما تأمرني به وما ترى؟
فقال له أمير المؤمنين عليه السلام:
أوصيك بتقوى الله وأن تنصرف فتقوم مقام أبيك في الجن، فإنك خليفتي عليهم، قال: فودع عمرو أمير المؤمنين وانصرف فهو خليفته على الجن،
فقلت له: جعلت فداك فيأتيك عمرو وذاك الواجب عليه؟
قال: نعم.
(اصول کافی باب 97 ، جن ائمہ کے پاس ۔۔۔)
یہ روایت ایک مرحوم ذاکر کے شاگرد جو شاید ہومیو پیتھک ڈاکٹر بھی ہیں ان سے مجلس میں سنی۔
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ امیر المومنین سے ایک جن اژدھا بن کر مسئلہ پوچھنے آیا اس وقت جب اپ مسجد میں خطبہ دے رہے تھے اور لوگ موجود تھے۔ آپ نے اس کو اس کی قوم جن کا سردار بنا کر بھیج دیا اور وہ مولا علی کا خلیفہ بن کر وہاں سے چلا گیا۔
اس پر صرف اتنا ہی تبصرہ کروں گا کہ سند میں موجود عمرو بن شمر نجاشی کے مطابق شدید ضعیف ہے۔ یہ شخص احادیث وضع کرتا تھا اور ان کی نسبت جابر کی طرف کردیتا تھا۔ اور اس شخص سے جتنی بھی مرویات ہیں ان پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
خلاصہ کلام، جب منبر سے ایسی اوٹ پٹانگ اور وضعی روایات سنائی جائیں گی تو سننے والوں کے دین و ایمان کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔
اللہ دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ابو جون رضا