منبر اور خطبات

جمعہ کا خطبہ اور مجلس حسین ، دونوں تبلیغ اور درس کے لیے بہترین زریعہ ہیں

افسوس یہ ہے کہ ان دونوں کو ماضی کی مقدس شخصیات کی شان بیان کرنے سے مخصوص سمجھ لیا گیا ہے۔

حد یہ ہے کہ اب نوجوان نسل خطبہ جمعہ بحالت مجبوری سنتی یے ۔ اس کو معلوم ہے کہ مولوی کو یہ پتا ہی نہیں کہ زمانہ کیا غضب کی چال چل گیا ہے۔ ملا مخصوص قصے اور جادوئی کہانیاں لیکر شروع ہوتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دین بس اسی شے کا نام ہے کہ من پسند شخصیات کہ مدح ، مناقب اور فضیلت بیان کی جائے۔ ان کے مخالفین کی تنقیص کی جائے۔ اور پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے۔

ائمہ اہلبیت ان سب باتوں کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ فلسفہ دین پر عمل پیرا ہونے کا درس دیتے تھے۔

ایک دفعہ اصحاب میں سے ایک شخص نے امام علی کی خوب تعریف و تمجید کی تو آپ نے اس کو شدت کے ساتھ ایسا کرنے سے منع کیا اور فرمایا:

“جان لو کہ صالحین کے نزدیک حکمرانوں کے لیے بدترین حالت یہ ہے کہ گمان کیا جائے کہ وہ تفاخر کے شیدائی ہو گئے ہیں اور ان کا کام فوقیت طلبی کے رنگ میں رنگ چکا ہے۔

میں اس بات سے ناخوشنود ہوں کہ حتی تمہارے ذہن میں یہ بات آئے کہ مجھے مدح و ستائش پسند ہے اور میں مدح و ثناء سن کر خوش ہوتا ہوں۔

مجھ سے اس طرح بات نہ کرو جس طرح کہ جابروں اور ظالم حکمرانوں سے بات کی جاتی ہے، تم میرے لیے جذباتی اور لفاظی پر مبنی القاب استعمال نہ کیا کرو۔

(نہج البلاغہ، خطبہ 216)

اس خطبے کی روشنی میں بتائیے کہ یہ راتوں کو مائک پر گلا پھاڑ پھاڑ کر مقدس شخصیات کی شان میں مدح سرا ہونا کیسا ہے؟ منبر سے جھوٹے قصے بیان کرنا کیسا ہے؟

جو شخص دنیا میں اپنی تعریف و تمجید سے خوش نہ ہوتا ہو وہ کیا دنیا سے جانے کے بعد پسند کرے گا کہ اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے جائیں؟

اللہ ہمیں دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

ابو جون رضا

www.abujoanraza.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *