یہ مسئلہ بھی اہل اسلام کے درمیان زمانے سے مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔ مسلمان امت کی کثیر تعداد قبور پر جانا، اور وہاں جاکر دعا کرنا ایک مستحسن عمل سمجھتی ہے۔ اس کے برخلاف کچھ لوگ قبور پر جانا اور دعا کرنے جیسے عمل کو خلاف شریعت قرار دیتے ہیں۔
بعض افراد کے نزدیک اولیاء اللہ ،بزرگان دین کی قبور کی زیارت حج و عمرہ سے بھی بڑھ کر ہے۔
یہاں تک کہ زیارات کی سفری گائیڈ میں ایک راویت میں نے پڑھی کہ رسول اکرم کا ارشاد ہے جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ
“جو شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو آیا اور وہ میری قبر کی زیارت کو نہ آیا تو اس نے مجھ پر جفا کی”
پھر یہ روایت کچھ اس طرح سے سامنے آتی ہے جس کا مفہوم ہے کہ
“جو شخص میری زیارت کو آیا اور اس نے میرے چچا حمزہ کی زیارت نہیں کی تو اس نے مجھ پر جفا کی”
اس سے ملتی جلتی تاکید امت مسلمہ میں دوسرے بزرگان دین اپنی موت کے بعد قبر کی زیارت کے حوالے سے کرتے آئے
مثلا امام رضا کے حوالے سے بیان کیا جاتا ہے کہ ان کی زیارت کو آو تو ان کی بہن معصومہ قم کی زیارت کو ضرور جاو۔
سندھ کے قلندر اپنے شاگرد بودلا سرکار کی قبر کی زیارت کا حکم دیتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ زیارت اصل میں ہے کیا؟
اگر یہ عام لوگوں کی قبور پر جانے کی تاکید ہے تو اس کی وجہ یہ بیان ہوسکتی ہے کہ یہ آخرت کی یاد آوری ہے۔ جو انسان مردہ ہے وہ دنیا سے جاچکا ہے۔ وہ جب تک زندہ تھا زمین سے پیدا شدہ اشیاء سے رزق حاصل کرتا تھا۔ مرنے کے بعد زمین نے اس کو اپنا رزق بنالیا۔ اس کا جسم ختم ہوگیا اور اعمال باقی رہ گئے ۔ اس کی قبر کو دیکھ کر انسان عبرت پکڑتا ہے۔ اور دعا کرتا ہے کہ پروردگار اس کو بخش دے۔ اس کی خطاوں سے درگزر فرما۔
اگر بات انبیاء کی ہوتی ہے تو ان کی قبر پر جاکر انسان زیادہ سے زیادہ یہ دعا کر سکتا ہے کہ پروردگار ان کی سیرت پر چلنے کی توفیق عطا فرما۔ اور ان پر اپنی رحمت نازل فرما۔
اس سے زیادہ کون سا عمل ہے جو نبی کریم کی سیرت میں بیان ہوا ہے؟
زیارت کو کسی عبادت سے مشابہ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا مثلا نماز روزہ حج کا ایک طریقہ سنت رسول میں بیان ہوا ہے ۔ اس طریقہ پر عمل کے بعد ظاہری طور پر اطمینان حاصل ہوجاتا ہے کہ عمل انجام دے دیا گیا یے۔
زیارت کہاں سے شروع ہو اور کہاں پر ختم ہو۔ کتنے دن بجا لائی جائے۔ کتنی مرتبہ بجا لائی جائے اس کا کوئی طریقہ سیرت نبی کریم سے نہیں ملتا۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ قبور کی زیارت اس قدر ضروری تھی تو اللہ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار یا جتنے انبیاء مبعوث کیے ان کی قبروں کو محفوظ رکھنے کا حکم کیوں نہیں دیا؟
پھر قبور کی زیارات کے ساتھ مقدس کہانیاں اور واقعات جڑ جاتے ہیں اور لوگ ان کا کعبے سے زیادہ احترام کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مقدس ہستی کے مزار پر زیارت کرنے والوں کا ایک مخصوص گروہ زمین پر رینگتے ہوئے جاتا ہے۔ پھر زیارت نامہ، پھول، چادر، اگربتی، موم بتی، مٹھائی ، کلاوے اور دھاگوں وغیرہ کا کاروبار ان قبور سے جڑ جاتا یے
شام میں جناب سکینہ کی ضریح مبارک میں لوگ عریضوں کے ساتھ ساتھ کھلونے بھی ڈالتے ہیں۔ ایک صاحبہ بتا رہی تھیں کہ انہوں نے منت مانی تھی کہ ان کے یہاں بیٹی ہو۔ انہوں نے شام میں ضریح کی صفائی کرنے والے ایک خادم سے ضریح میں ڈالی گئی ایک گڑیا حاصل کرلی۔ ان کو یقین تھا کہ اب تو لڑکی ہی پیدا ہوگی۔ کیونکہ جناب سکینہ نے گڑیا عطا کردی۔
لیکن اللہ کے حکم سے ان کے یہاں تیسرا بچہ بھی لڑکا ہی پیدا ہوا۔
شام میں جناب فضہ کی قبر مبارک پر لوگ چادریں ڈالتے ہیں۔ ان زواروں کے ہٹنے سے پہلے قبرستان کے باہر چادریں بیچنے والے وہ چادریں اٹھا کر لے جاتے ہیں اور مہنگے داموں دوبارہ نئے زواروں کو بیچ دیتے ہیں۔
یہ اسلام کی وہ شکل ہے جس کے بارے میں نبی کریم نے پیشن گوئی فرمائی تھی جس کا مفہوم یہ ہے کہ اسلام ایک اجنبی کی حیثیت سے شروع ہوا تھا اور رفتہ رفتہ اپنی گزشتہ حالت کی طرف لوٹ جائے گا۔
ایسے انحرافات کے دور میں جو انسان اصل اسلام پر عمل پیرا ہوگا وہ معاشرے میں اجنبی ہوگا۔
اجنبی پر ہی سلام ہے۔
“تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُمْ مَا كَسَبْتُمْ وَلَا تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ”
“وہ ایک امت تھی جو گذر گئی ۔ جو کچھ انہوں نے کمایا وہ ان کا ہے اور جو کچھ تم نے کمایا وہ تمہارا ہے اور تم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا عمل کرتے تھے”
(سورہ البقرہ)
اللہ ہمیں دین کو صحیح معنوں میں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com