منافع بخش کاروبار

آفس میں کھانا کے دوران گفتگو میں میرے کولیگ نے مجھے بتایا کہ وہ شادی کے فورا بعد اپنی وائف کے ساتھ کربلا جانا چاہتا ہے۔ میں نے پوچھا کہ آپ عمرے پر کیوں نہیں جاتے تو انہوں نے جواب دیا کہ پہلے یہ ضروری ہے۔ جب حج پر جاوں گا تو عمرہ ساتھ میں کر لوں گا۔

یہ ایک عام احساس ہے جو شیعوں کے ذہن میں موجود ہے کہ کربلا یا ایران کی زیارات عمرہ اور حج سے زیادہ فضیلت رکھتے ہیں۔

جب سے پچھلے کچھ سالوں سے اربعین کربلا میں منایا جا رہا ہے اور مشی کی دھوم ہوئی ہے تب سے اربعین پر کربلا جانے کی آرزو تقریبا ہر شیعہ اپنے دل میں رکھتا ہے۔

میں نے خود کئی دفعہ صفر کے ایام میں جمعے کے خطبے اور مجالس میں خطباء کو سنا کہ وہ اربعین پر عراقیوں کی مہمان داری کا تزکرہ کرتے نہیں تھکتے۔ ایک بڑے اور مشہور عالم دین نے تو یہ تک فرمایا کہ انسان یہ سوچتا ہے اتنی عزت تو کبھی گھر میں نہ ملی جتنی عراق میں اربعین پر ملی۔ اتنے اچھے جوتے پالش تو کبھی گھر والی نے نہیں کیے جتنے عراقی میزبانوں نے کر دیے وغیرہ۔۔اسی طرح وہاں کے کھانوں اور سوغاتوں کا تذکرہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ منہ میں پانی بھر آتا ہے۔

کاروان والے بھی اس کو پروموٹ کرتے ہیں اور ان کے پے رول پر موجود علماء جو ہر سال ان قافلے والوں کے ساتھ جاتے ہیں وہ بھی اربعین پر کربلا جانے کی فضیلیتیں بیان کرتے نہیں تھکتے۔

اس سے پہلے اربعین شام میں منایا جاتا تھا کیونکہ عراق کے حالات خراب تھے۔ اس وقت شام جانے کی فضیلت بیان کی جاتی تھی۔ اب جب سے شام کے حالات خراب ہوئے ہیں، اربعین پر کربلا کا رخ کیا گیا ہے اور یہ منافع بخش کاروبار بن گیا یے۔

یہ وہ منافع ہے جو دنیا میں بھی ملتا ہے اور آخرت میں بھی اس کے سہانے سپنے معصوم لوگوں کی آنکھوں میں بسائے جاتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ وہ کون سا گھر ہے جس کی طرف دعوت قران میں خود اللہ نے دی ہے؟ خدا نے کس کی میزبانی کرنا چاہی ہے؟

وہ کونسی عبادت یے جس کو استطاعت رکھنے کے باوجود ترک کرنے پر یہودی و نصرانی مرنے کی وعید سنائی گئی ہے؟

کیونکہ نبی کریم نے کربلا و شام کی زیارات نہیں کیں تو ان کے نام سے جھوٹ سنایا جاتا ہے کہ ہر شب جمعہ نبی کریم خود مدینے سے چل کر کربلا امام حسین کی زیارت کو تشریف لاتے ہیں۔ یہاں تک کہ تمام انبیاء بھی ہر شب جمعہ امام حسین کا شکریہ ادا کرنے کربلا تشریف لاتے ہیں۔

لیکن امام حسین کس کا شکریہ ادا کرتے ہیں؟ وہ خود ہر شب جمعہ اپنی بہن زینب کا شکریہ ادا کرنے شام تشریف لے جاتے ہیں۔

اس ساری ٹریولنگ کو مانیٹر کرنے والے زمین پر موجود خدا کے نمائندے ہیں جن کو مولوی کہا جاتا ہے۔ عام افراد تو بس ان کے منہ سے یہ سب باتیں سن کر خوش ہوتے ہیں۔

یہ اور اس جیسی کئی من گھڑت روایات میں نے اپنے کانوں سے ملاوں کے منہ سے سنی ہیں۔

جب ایک عام انسان یہ سنتا ہے تو اس کے زہن میں حج اور عمرہ کی کیا اہمیت باقی رہ جاتی ہے؟

اوپر سے رہی سہی کسر حجاز میں موجود وہابیت سے نفرت پورا کر دیتی ہے۔

شیعہ حج بھی کرتے ہیں، عمرہ بھی انجام دیتے ہیں۔ مگر زیارات اہل بیت کی ترغیب جس طرح سے ان کے یہاں دی جاتی ہے اس طرح سے حج و عمرہ کو پروموٹ نہیں کیا جاتا۔

ہم تاریخ میں موجود اہل بیت کی زندگی کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ امام حسن، امام حسین، امام زین العابدین پچیس تیس حج اور لاتعداد عمرہ بجا لائے ہیں۔ وہ خانہ کعبہ کے مشتاق اور مستقل زوار تھے۔

ان کے ماننے والوں کو بھی ان کی ہی سیرت پر عمل پیرا ہونے چاہیے۔

اللہ ہم سب کو دین کو سمجھنے کی صحیح معنوں میں توفیق عنایت فرمائے

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *