ایک شخص دریا کے کنارے کنارے جا رہا تھا کہ اسے کوئی چیز تیرتی ہوئی نظر آئی. کچھ صاف نظر نہیں آ رہا تھا کہ یہ چیز کیا ہے.غور سے دیکھنے پر اس شخص کو محسوس ہوا کہ یہ چیز دراصل ایک سیاہ رنگ کا کمبل ہے. اس شخص نے سوچا کہ یہ کمبل کشتی میں سفر کرتے ہوئے کسی مسافر کی غلطی سے دریا میں گر گیا ہے اور چونکہ ارد گرد کوئی انسان نظر نہیں آ رہا اس لیے وہ یہ کمبل لینے میں حق بجانب ہے.
وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ اس کمبل کو کیسے حاصل کرے کہ اچانک کچھ دوراسے ایک آدمی آتا ہوا دکھائی دیا. اس شخص نے سوچا کہ اس سے پہلے کہ وہ دوسرا آدمی بھی کمبل کو دیکھے اور اپنا حق جتائے، مجھے کچھ کرنا چاہئیے.
یہ خیال آتے ہی اس شخص نے آؤ دیکھا نہ تاؤ دریا میں چھلانگ لگادی. وہ تیزی سے کمبل کی طرف تیرا اور آناَ فاناَ کمبل کو دبوچ کر اپنی طرف کھینچا.
اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب کمبل نے بھی اسے کھینچنا شروع کر دیا. اس کھینچا تانی میں اس شخص پر یہ عقدہ کھلا کہ یہ کمبل در حقیقت ایک ریچھ ہے جو دریا کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ بہتا جا رہا تھا. ریچھ سے جان چھڑانے کے لیے، اس شخص نے ہاتھ پاؤں چلانے شروع کر دیے.
اس دوران وہ دوسرا آدمی بھی کنارے تک پہنچ چکا تھا. جب اس نے کمبل والے شخص کو ڈوبتے ابھرتے دیکھا توچلا کر پوچھا کیا تمہیں تیرنا آتا ہے. جواب میں ڈوبتے ہوئے شخص نے بھی چلا کر کہا، ہاں، لیکن یہ کمبل مجھے تیرنے نہیں دے رہا.اس آدمی نے دوبارہ چلا کر کہا، اس کمبل کو چھوڑو اور کنارے کی طرف تیر کر اپنی جان بچاؤ.
ڈوبنے والے نے بے بسی کے ساتھ کہا،میں تو کمبل کو چھوڑ رہا ہوں، کمبل مجھے نہیں چھوڑ رہا.
اسلامی تاریخ کے تراشیدہ فسانے اور تاریخ بڑی حد تک سیاسی پروپیگنڈوں کی پیداوار ہیں
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ فسانے مسلمانوں کی تقدیسی تاریخ میں ایک ایسا مقام حاصل کر چکے ہیں کہ ان پر تحلیل و تجزیہ خلاف ایمان سمجھا جاتا ہے
تراشیدہ تاریخ ریچھ کے کمبل کی مانند ہے
آپ اسے چھوڑنا بھی چاہیں تو وہ آپ کو نہیں چھوڑتا
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com