وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
زن کا وجود اب اشتہاروں میں رنگ بھرتا نظر آتا ہے۔ یہ رنگ بھی مردوں کا ہی بھرا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت نے اس رنگ کو خود پر کیوں چڑھایا ہے؟ کیا وہ مردوں کو لبھانے کے لیے پیدا ہوئی یے؟ ایک اشتہار میں مرد کی قمیض پر داغ لگ جاتا ہے۔ عورت دوسرے دن وہی قمیض ایک بہترین واشنگ پاوڈر سے دھو کر مرد کا دل جیت لیتی ہے۔
مکالمات فلاطوں اس لیے عورت نہ لکھ پائی کہ مردوں نے موقع ہی نہیں دیا۔ وہ ہمیشہ مردوں کے دست نگر رہی۔ مذہبی کتابوں میں اس کو باپ کی اطاعت گزار ، پھر شوہر کی اور آخری عمر میں اولاد کی دست نگر بتایا گیا یے۔ (ارتھ شاستر)۔ حمورابی کے قوانین ہوں یا منو کے یا پھر بہشتی زیور ، سب جگہ عورت مرد کی کھیتی ہے۔ مرنے کے بعد اس کو جنت میں رنگ بھرنا ہے کیونکہ وہاں بھی مرد کا دل خوش کرنا ہے۔
امرتا پریتم نے کہا تھا کہ
“مرد نے عورت کے ساتھ ابھی تک سونا سیکھا ہے جاگنا نہیں اس لیے مرد اور عورت کا رشتہ الجھن کا شکار رہتا ہے”
مرد اور عورت گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پرانے زمانے کی کسی بیل گاڑی کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ قول کہا گیا ہوگا۔ لیکن بہرحال بات اس لحاظ سے درست ہے کہ جب مرد اور عورت شادی کے بندھن میں بندھتے ہیں تو ایک خاندان کا ادارہ وجود میں آتا ہے ۔ تلذذ کے ساتھ ساتھ مسائل بھی وجود میں آتے ہیں۔ دونوں میاں بیوی کو مل کر مسائل حل کرنا ہوتے ہیں۔ بچے کہاں پڑھیں گے، کہاں جانا ضروری ہے، کہاں پیسہ خرچ کرنا یے وغیرہ۔ یہ بات دونوں میاں بیوی مل کر طے کرتے ہیں۔ جب ایک ادارہ بنے گا تو اس کا ایک سربراہ بھی ہوگا۔ مرد گھر کے باہر کے معاملات سنبھالے گا کیونکہ اس کی ساخت اس قسم کے کاموں کے لیے زیادہ مناسب یے۔ گھر کے اندرونی کام عورت سنبھالے گی کیونکہ وہ اس کو مرد سے بہتر چلا سکتی ہے۔ اگرچہ عورت میں یہ قوت ہے کہ وہ گھر کے باہر بھی کام کرسکتی ہے اور گھر بھی چلا سکتی ہے مگر ایک وقت میں انسان ایک ہی جگہ موجود ہوسکتا ہے۔ اس لیے مرد کی اہمیت اپنی جگہ پر ہے۔
یہاں تک تو بات ٹھیک ہے۔
اب پوائنٹ یہ آتا ہے کہ دین کا سوال ہر انسان سے انفرادی طور پر ہے۔ وہاں بھی مرد اپنی مرضی کیوں چلاتا ہے؟ شاید اسی لیے کہا جاتا ہے کہ عورت مرد کے دین پر ہوتی ہے کیونکہ وہ دو قدم بھی مرد کے بغیر نہیں چل سکتی چاہے اسے حج و عمرہ کے لیے جانا ہو۔ ہر جگہ وہ مرد کی محتاج ہے۔ کمال حیرت ہے کہ فضائی سفر میں ائیر ہوسٹس پوری دنیا میں سفر کرتی پھریں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوتا مگر جیسے ہی مذہبی عبادت کی بات آتی ہے تو فورا مرد کا پھندنا ساتھ لگانا پڑتا ہے۔ اور یہ متنبہ کردیا جاتا ہے کہ اگر حج و عمرہ پر عورت مرد کے بغیر جائے گی تو ہر قدم پر اس کو گناہ ملے گا۔
کس مولوی کو سننا ہے یا کس ملا کی کتابیں پڑھنی ہیں یہ بھی مرد طے کرتا یے۔ جس پیر کا مرد مرید ہوتا ہے ، کم سے کم اپنے بچوں کو نہ سہی مگر بیوی کو اس کا مرید ضرور بنا دیتا یے یا پھر اس کے قصے اور افکار سنا سنا کر پاگل کردیتا ہے۔ اس کے علاوہ عورت کی اپنی تخلیقی صلاحیتیں کیا ہیں؟ وہ رائٹر ہے، اچھی پینٹر ہے، ڈاکٹر ہے، اسپیکر ہے ، اس سے مرد کو کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس کو گھر صاف ستھرا، کھانا پکا ہوا، کپڑے استری وغیرہ ٹائم پر چاہئیں۔
ہمارے معاشرے میں مثالیں موجود ہیں کہ ماں باپ نے پیسہ خرچ کر کے اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔ شادی کے بعد شوہر نے اس کو گھر بٹھادیا کہ تمہارا کام تو بچے پالنا ہے۔ تم گھر کو وقت دو۔ ویسے بھی عورت کی کمائی میں خدا نے برکت نہیں رکھی ہے۔🤔
سیمون دی بوا نے The Second Sex کے نام سے 1949 میں ایک کتاب لکھی جس نے بہت شہرت حاصل کی اور آج فیمنزم کی بنیادیں اسی کتاب کی مرہون منت ہیں۔
اس کتاب میں سیمون دی بووا نے پدر سری معاشرے پر بات کی ہے اور ان عورتوں پر سخت تنقید کی ہے جنہوں نے مردوں کو سر پر چڑھا رکھا ہے۔ ان کے مطابق جس طرح سے مرد ایک مخلوق ہے اسی طرح سے عورت بھی ایک مخلوق ہے۔ اس کی بھی تخلیقی صلاحیتیں ہیں۔ اس کو بھی معاشرے میں اپنا رول پلے کرنا چاہیے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ اس کی ساری زندگی مرد کی چاکری کرتے گزرتی یے۔ اس کے والدین کا بھی اولین مقصد یہ تھا کہ انکی بیٹی کی کسی معاشی طور پر مضبوط مرد سے شادی ہوجائے اور جب شادی ہوجاتی ہے تو اس عورت کا کام گھر چلانا اور مرد کی غلامی کرنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی عورت کو سیمون بیکار مخلوق قرار دیتی ہیں جو بس بچے پیدا کرتی ہیں، مرد کی غلامی کرتی ہیں اور مر جاتی ہیں۔ معاشرے کی تعمیر میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
سیمون کے الفاظ میں ایسی عورتیں اپنے مردوں کو مار تو نہیں سکتیں لیکن شاید لاشعوری طور پران کے مرنے کی منتظر ہوتی ہیں تاکہ آزاد ہوسکیں۔
ابو جون رضا
www.abujoanraza.com