سینٹ روزالیہ ایک زاہد دوشیزہ تھی۔ یہ برسوں ایک غار میں محو عبادت رہیں۔ کثرت مجاہدہ کی وجہ سے عین عالم شباب میں انتقال کر گئیں۔ ان کے جسم کی ہڈیاں برسوں اسی غار میں دفن رہیں جس میں ان کا انتقال ہوا تھا۔ یہاں تک کہ بلرم اٹلی میں طاعون کی وباء پھوٹ پڑی اور لوگ دھڑا دھڑ مرنے لگے۔
کچھ لوگوں کو اس راہبہ کی خواب میں زیارت ہوئی جو کہتی تھیں کہ ان کے پاس وباء کی روک تھام کے لیے نسخہ موجود ہے۔ لوگوں نے ڈھونڈ کر کسی غار سے اس راہبہ کے جسم کی ہڈیاں نکال کر انہیں شہر میں جلوس کی شکل میں گھمایا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ طاعون رک گیا۔
وہ ہڈیاں عقیدت مندوں نے محفوظ کرلیں اور برسوں تک اہل سسلی ان ہڈیوں سے برکتیں حاصل کرتے رہے۔ اس کے علاوہ مختلف معجزات کا زکر بھی لوگوں کی زبانوں پر رہا جو ان ہڈیوں کی برکت سے وقوع پزیر ہوئے تھے۔
1825 میں ایک برطانوی محقق ولیم جب وہاں پہنچا اور اس نے ہڈیوں کا باریک بینی سے معائنہ کیا تو پتا چلا کہ یہ انسانی نہیں بلکہ کسی بکری کے جسم کی ہڈیاں ہیں۔
اس کے باوجود بھی ان بکری کی ہڈیوں کو آج بھی راہبہ کے آثار کی حیثیت سے مقدس مانا جاتا یے۔ اور حصول برکت کے کاروبار میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
ایسے اسطورے ہر مذہب ہر فرقے میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اللہ کے بجائے مقدس بزرگوں کی خوشنودی جب مرکز نگاہ بن جائے تو ایسی ہی کہانیاں جنم لیتی ہیں۔ پھر ان کو بھینٹ دیکر خوش کیا جاتا یے۔ ان کی پیدائش اور شادی والے دن کیک کاٹے جاتے ہیں ، مبارکبادیں دی جاتی ہیں۔ کارڈ چھاپے جاتے ہیں جن میں خدا کو میزبان اور انبیاء کو چشم براہ بتایا جاتا ہے۔ اور آسمانی صحیفے مقدس بزرگوں کے گھر کے باہر کھڑے قصیدے پڑھ رہے ہوتے ہیں۔
جب اعمال سے منہ پھیرا جاتا یے تو خوش عقیدگی اس کی جگہ لے لیتی ہے اور پھر روحانی طلسم خانے وجود میں آتے ہیں۔ جن میں لوگ سحرزدہ گھومتے رہتے ہیں۔
ذی الحجہ کا آغاز ہوگیا ہے۔ علامہ طباطبائی کے مطابق ذی الحجہ کی ابتداء کی دس راتوں کی اللہ نے قران میں سورہ فجر میں قسم کھائی ہے۔ ان راتوں کو ضائع نہ کریں اور بندوں کے قرب کے بجائے اللہ کے قرب کی تلاش کریں۔
ابو جون رضا