مذہبی بیانیہ کی تشکیل نو

اقبال کے مطابق ہر پچاس سال بعد امت کو اپنے مذہبی بیانیے اور افکار پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ الحاد جس سرعت سے مذہب پر حملہ آور ہے اس سے یہ بات اب ضروری ہے کہ ہم اپنے پرانے مذہبی افکار و خیالات کا دوبارہ سے جائزہ لیں۔

دنیا بہت تیزی سے سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھ گئی ہے۔ اب خوابوں کی تعبیر کے لیے ابن سیرین کی تعبیر الرویاء کے بجائے سگمنڈ فرائڈ کی خوابوں کی تعبیر کی طرف نظر جاتی ہے۔ پہلے قران سے زمین کے ساکن ہونے کا نظریہ پیش کیا جاتا تھا۔ اب سائنس نے ثابت کردیا ہے کہ زمین حرکت میں ہے۔ پہلے انسان حضرت آدم کہے جاتے تھے جن کی تاریخ بمشکل پانچ ہزار سال پہلے کی ہے اور اب جبکہ مردہ انسانوں کی ایسی ہڈیاں دریافت ہوئی ہیں جن کا زمانہ لاکھوں سال پہلے کا تھا۔ تو خود حضرت آدم پر اور جناب حوا کے وجود پر سوال کھڑے ہوگئے ہیں اور انسانی اور حیوانی ارتقاء کا نظریہ پرانی فکری عمارتوں کو ڈھا رہا ہے۔

اس وجہ سے نوجوان نسل بڑی تیزی سے الحاد کی طرف مائل ہورہی ہے ۔ ایک نظریہ مقبولیت پکڑ گیا ہے کہ اگر کائنات کا کوئی خدا موجود بھی ہے تو وہ کائنات میں کسی بھی قسم کی مداخلت نہیں کرتا۔ یہاں جو کچھ بھی ہوتا ہے وہ طبعی قوانین کے تحت ہی ہوتا ہے۔

اب کسی ایسے شخص کی آمد کا نظریہ جو دنیا میں ہر طرف امن قائم کردے گا۔ فرسودہ ہوگیا ہے کیونکہ اب تو خدا کے وجود پر سوال پیدا ہوگئے ہیں ۔ جب خدا اس کائنات میں مداخلت نہیں کرتا تو کیسے کوئی شخص دنیا کا اقتدار آنا فانا لوگوں سے چھین کر کسی مخصوص فرقے یا قوم کے ہاتھ میں دے سکتا ہے؟

ضرورت ہے کہ پرانے خیالات اور افکار کو دوبارہ سے ریویو کیا جائے۔ جنگ اور تشدد کی جگہ دعوت اور امن کے بیانیے کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کو اس بات کی تعلیم دی جائے کہ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزریں۔ دین تزکیہ نفس کے لیے آیا ہے اور یہ انفرادی طور پر فرد سے مخاطب ہوتا ہے۔

انسان کو یہ بتایا جائے، اس کو یہ رہنمائی فراہم کی جائے کہ اس دنیا اور اس کائنات سے متعلق اور خود انسان سے متعلق وہ کون سے بنیادی حقائق ہیں جن کی صحیح معرفت انسان کی نجات کے لیے اور اس کی کامیابی کے لیے ضروری ہیں۔

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *