مجھے شیطان چاہیے

منٹو نے انکل سام کو زمانے پہلے لکھا تھا کہ

“یہاں کا مُلّا روس کے کمیونزم کا بہترین توڑ ہے۔ اِن ملّاؤں کو مُسلّح کیجیے، پھر دیکھیے سوویت روس کو یہاں سے پاندان اُٹھانا ہی پڑے گا”

(چچا سام کے نام چوتھا خط، مشمولہ، منٹو کے مضامین، مرتبہ ڈاکٹر ہمایوں اشرف۔ ص : 160)

سویت یونین تو چلا گیا۔ ملا آج بھی موجود ہے اور مسلح بھی ہے ۔

ملا کی دنیا کیسی ہوتی ہے؟

اس دنیا میں آرٹ نہیں ہوتا۔ فلم نہیں ہوتی۔ اسٹیج نہیں ہوتا۔

اس میں مجسمے توڑے جاتے ہیں۔

یہاں موسیقی پر پابندی ہے۔ بس قوالی کی دھن پر جھوما جاتا ہے۔

یہاں جسم کی بھوک کو دبایا جاتا ہے۔ صرف روح کی بھوک کو یاد رکھا جاتا ہے۔

یہاں عورتوں کو پڑھنا سکھایا جاتا ہے، لکھنا نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی غیر مرد کو خط لکھ ڈالے۔ خیال رکھا جاتا ہے کہ سورہ یوسف نہ پڑھنے پائے مبادا خود کو زلیخا سمجھ بیٹھے اور کسی پاکباز مرد کو بہکانے لگ جائے۔

اس دنیا میں تصویر حرام ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو خلوت کی کہانیاں کیمرے کے زریعے منظر عام پر آجائیں۔ اور کوئی شریف مولوی فضول میں بدنام ہوجائے۔

شاعر کے تخیل کی پرواز کے پر کتر دیے گئے ہیں اب یہاں حسن و عاشقی کی باتیں نہیں ہوتیں۔

یہاں بے پردہ عورت کو کوڑے مارے جاتے ہیں۔عورت تو ویسے بھی فتنہ ہے۔ اس کی اچھی بات بھی نہیں مانی جاتی مبادا اپنی بری باتیں منوانے لگ جائے۔

اس دنیا میں کھیل کی جگہ نہیں ہے ۔ لہو و لعاب کا اس پاکیزہ دنیا میں کیا گزر۔

مصور کا برش توڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ عورت کے جسم کے خدوخال پینٹ کردے۔ مصور کو تو مسجد کی محراب میں بھی عورت کے جسم کی گولائیاں نظر آتی ہیں

لیکن پتا نہیں نیکی سے بھری اس پر سکون دنیا میں میرا دل کیوں نہیں لگتا؟

شاید یہاں خدا تو ہے

مگر شیطان نہیں ہے۔

ابو جون رضا

www.abujoanraza.com

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *