آیت اللہ علی خامنہ ای اور عزاداری

رہبر معظم کے خطبات پر مشتمل ایک کتاب “اشکوں کا راز” نظر سے گزری۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ آج سے سات آٹھ سال پہلے جو باتیں حقیر طالب علم کہا کرتا تھا ، وہ ایک عالم کی زبان سے ادا ہوئیں۔ مجھے لوگ بھٹکا ہوا اور وہابی ایجنٹ یا عزاداری کا دشمن کہا کرتے تھے۔ اب رہبر کو کیا کہیں گے یہ مجھے معلوم نہیں ہے۔

کتاب کے کچھ نکات پیش خدمت ہیں۔

1۔ امام عالی مقام نے حکومت کے لیے قیام کیا نہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کے قیام کا مقصد شہادت تھا۔ وہ حکومت کے لیے بھی آمادہ تھے اور شہادت کے لیے بھی۔ ( فان اللہ قد شاء ان یراک قتیلا پر غور کیجئے).

2۔ بہت سے لوگ خاموش بیٹھے رہے وہ جانتے نہیں تھے کہ کہاں اسلام کا دفاع کرنا ہے۔ جناب زینب خود بھی آئیں اور دو بچے بھی لے آئیں جبکہ ان کے شوہر عبداللہ ابن جعفر طیار مدینے میں بیٹھے رہے۔ یہ وہ گناہ ہے جو بنی ہاشم کے بہت سے بزرگوں اور صدر اسلام کی اہم شخصیات کی اولاد نے انجام دیا۔ کوئی یہ تصور نہ کرے کہ عبداللہ ابن جعفر اور عبداللہ ابن عباس دوسروں سے الگ تھے۔ ان سب نے نافرمانی کی تھی۔ کسی میں جرائت نہیں تھی کہ حسین ابن علی کا ساتھ دے۔

3۔ آج بہت سے اسلامی ممالک میں ظالموں اور جابروں کی حکومت ہے جو حلال خدا کو حرام اور حرام الہی کو حلال کرنے میں لگے ہیں۔ خدا کے عہد کو توڑ کر امریکا سے عہد و پیمان کرتے ہیں۔ایسے ممالک میں وہ لوگ جو خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور اس علم کے مقابلے میں اپنی کوئی زمہ داری نہیں سمجھتے وہ کس زمرے میں ہیں؟

( یہ وہی سید مودودی کی سوچ کا اثر ہے جو امام خمینی سے ہوتا ہوا ایت اللہ خامنہ ای تک آیا ہے جس کا زکر میں نے اپنےمقالے میں کیا تھا)

4۔ جو لوگ یہ سمجھ نہ پائے کہ امام حسین کے ماننے والوں کی کیا ذمہ داری ہے انہیں خود پر رونا چاہیے۔

  1. بے معنی باتوں اور ظاہری عشق و عاشقی سے پرہیز کیجئے۔ بعض خطباء اور ذاکرین ماحول و مجمع کو مدنظر رکھتے ہوئےزیادہ سے زیادہ رقت طاری کرنے کے لئے جو ذہن میں آتا ہے کہہ دیتے ہیں ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک واقعہ پیش آیا ہے اس کو صحیح طریقے سے بیان ہونا چاہیے۔ غلط بیانی سے کام نہ لیا جائے۔

6۔ عزاداران امام مظلوم سے میری ایک نصیحت ہے کہ لوگوں کی ناراضگی اور ان کی اذیت کا سبب نہ بنیں۔ امام خمینی ہمیشہ یہ نصیحت کرتے تھے کہ راتوں میں یہ لاوڈ اسپیکر لوگوں کی اذیت کا سبب نہیں ہونا چاہیئں۔ یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہم امام حسین کی عزاداری منا رہے ہیں۔ کسی کو نیند نہیں آتی تو نہ آئے۔ یہ بات کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ بعض لوگ مائک پر جا کر سینہ زنی کرتے ہیں ۔ آخر کس لئے؟ ( تمام ماتمی انجمنیں جو رات کو مائک پر شور شرابا کرتی ہیں ان کا تو حقہ پانی بند ہوجائے گا اگر یہ بات مان لیں)

7۔ اگر آپ نے اس وقت جو لوگوں کے سونے اور آرام کا وقت ہے اپنے نوحے سے کسی کو اذیت پہنچائی تو آپ نے حرام اور خلاف شریعت کام انجام دیا۔

8۔ اگر آپ کو اسپیکر لگانا ہے تو محلے والوں کا راضی ہونا ضروری ہے۔ اگر وہ راضی نہ ہوں تو لاوڈ اسپیکر نہ لگایا جائے خاص کر دیر رات تک اس کی اجازت نہیں ہونی چاہیے اور حکومت کے ذمہ دار افراد کو اس کی روک تھام کرنی چاہیے۔( یہاں کے لیڈر کہتے ہیں کہ ہمیں عزاداری کرنے کے لیے کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے)

9۔شبیہ خوانی ایک نمائش اور ڈرامہ کی طرح ہے جو عام بیان سے بالکل مختلف ہے۔ لیکن اچھی اور مثبت ہونی چاہیے۔ اس میں جھوٹ نہیں ہونا چاہئے۔

10۔ عزاداری کبھی شیعوں سے مخصوص نہیں رہی بلکہ وہ تمام لوگ جن کے دل میں اہلبیت کی محبت ہے وہ ان مصائب پر غمگین اور عزادار رہا ہے۔ ان مراسم میں کوئی ایسا کام نہ کریں جس سے دوسرے فرقوں کی توہین ہوتی ہو۔

11۔ صرف یہ کافی نہیں ہے کہ مجلس ہو بلکہ مجلس کی روح بھی اس میں موجود ہو۔ منبر کو انسان ساز اور فکر ساز ہونا چاہیے۔ البتہ یہ بات مجھے منبروں سے کہنا چاہیے اور کہتا بھی ہوں ۔ لیکن آپ لوگوں سے کہنا ضروری سمجھتا ہوں کیونکہ آپ خطیب کا انتخاب کرتے ہیں

12۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی کتاب میں کوئی ایسی حکمت یا اخلاقی بات ہوتی ہے جس کی کوئی سند نہیں ہوتی، اسے بیان کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کبھی ایسی بات ہوتی ہے جو مخاطب کے فہم و تصور سے بہت بعید ہوتی ہے۔ ایسی بات نہیں کہنی چاہیے۔ ( دوسرے لفظوں میں رہبر بھی سند و متن دونوں کی اہمیت بیان کر رہے ہیں کہ اگر صحیح سند سے بات بیان کی جائے گی تو مخاطب پر اثر رکھے گی نہ کہ اوٹ پٹانگ معجزے اور کرامات بیان کی جائیں۔ جن کا لوگ مذاق اڑائیں)۔ یہ صحیح نہیں ہے کہ ہم صرف آیات رحمت کو پڑھیں اور لوگوں کو غفلت کا شکار بنائیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہو کہ لوگ اس خیال خام میں پڑ جائیں کہ وہ معنویت میں غرق ہیں۔

13۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی عالم یا کوئی ذمہ دار شخصیت ایک حق بات کہے تو یہ کہہ کر ایک تحریک کھڑی کردی جائےکہ اس بات سے عزاداری پر حرف آرہا ہے۔ جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ قمہ زنی کے معاملے میں ایسا ہی ہوا۔ ہماری نظر میں قمہ زنی یقینی طور پر ایک خلاف شریعت عمل تھا اور ہے۔

14۔ آخر ان چیزوں پر اتنا زور کیوں دیا جاتا ہے جن میں سے بعض خرافات ہیں؟ اور وہ کام بھی جو محض خرافات نہیں ہیں وہ بھی اس ٹیکنالوجی کی دنیا میں آج کے رائج تمدن اور ثقافت میں ہمارے گھروں ، جوانوں اور لڑکے لڑکیوں میں موجود عقلانیت پر الٹا اثر رکھتے ہیں۔ یہ شریعت کے واضحات میں سے نہیں ہے کہ کہا جائے چاہے دنیا کو اچھا لگے یا برا، ہم تو کہیں گے۔

15۔ بہترین شاعر ، بہترین مفکر اور بہترین اشعار سے استفاذہ کیجئے نہ کہ عوامانہ اشعار سے۔

16۔ ایک اور چیز جس کی حقیر کو اطلاع ملی ہے وہ بعض مداحوں کی طرف سے کی جانے والی بے جا مدح و ثناء ہے جو بعض اوقات مفید ہونے کے بجائے مضر بھی ہوتی ہے۔ فرض کریں جناب ابوالفضل عباس کے متعلق گفتگو ہورہی ہے ۔ اب مداح ان کے چشم و ابرو کی تعریف شروع کر دے۔ مثلا آپ کی آنکھوں ہر قربان جاوں ۔ ( یہاں رہبر سوال کرتے ہیں جو عوام کو یقینا بڑا برا لگے گا) کیا دنیا میں خوبصورت آنکھوں کی کمی ہے؟ کیا آپ نے جناب عباس کو دیکھا ہے اور کیا آپ جانتے ہیں کہ ان کی آنکھیں کیسی تھیں ؟ یہ سب چیزیں تشیع کے بلند و عالی معارف کی سطح کو نیچے لے آتی ہیں۔

میرا خیال ہے رہبر کے ارشادات کی روشنی میں ہمیں عزاداری کی رسومات اور مجالس کو از سر نو ریویو کرنے کی ضرورت ہے۔

ابو جون رضا

www.abujoanraza.com

1 thought on “آیت اللہ علی خامنہ ای اور عزاداری”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *