اس سے پہلے اس موضوع پر جتنی پوسٹ کی گئیں ان میں اکابر علماء اور اسکالر حضرات کے اقامت دین کے حوالے سے موقف کو بیان کیا گیا تھا۔ کم و بیش سبھی افراد اسلامی نظام کو طاقت کے ذریعے رائج کرنے کے حامی ہیں اور اس کو دین اسلام کا عین تقاضہ سمجھتے ہیں۔ یہ تمام افراد سمجھتے تھے کہ اگر اسلامی حکومت قائم نہیں ہوگی تو دین کا بنیادی مقصد ہی پورا نہیں ہوگا۔ اس کے لیے یہ تمام اسکالر حضرات مسلح جدوجہد کو بھی مباح سمجھتے تھے۔
یہ بیانیہ مولانا مودودی کے زمانے سے اب تک عالم اسلام میں رائج رہا ۔ اگرچہ کہ اس بیانیے پر نقد کیا گیا مگر اس کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوئی۔
اس بیانیے پر سب سے شائستہ اور مضبوط انداز میں تنقید مولانا وحید الدین خان صاحب نے کی۔ موصوف پہلے جماعت اسلامی سے وابستہ تھے۔ اور جماعت اسلامی کے اہم رکن جماعت سمجھے جاتے تھے۔ بعد میں ان کی رائے تبدیل ہوئی اور انہوں نے مولانا مودودی کو خط لکھ کر ان کی بیان کردہ اصطلاحات کی قران و سنت سے دلیل طلب کی۔ مولانا مودودی نے ان کی تنقید کو درخور اعتناء نہیں سمجھا۔ مولانا وحید الدین خان صاحب کے بار بار کے اصرار پر انہوں نے یہ کہہ کر جان چھڑا لی کہ آپ اس کو شائع کردیں۔ میرے کرم فرماوں میں ایک نام کے اضافہ سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
مولانا وحید الدین خان نے ناچار اپنی کتاب ” تعبیر کی غلطی” میں اس ساری روداد کو بے کم و کاست بیان کردیا۔ اور اپنا نقد بھی سب کے سامنے پیش کردیا۔
ذیل میں مولانا وحید الدین خان کے افکار کو مختصرا بیان کیا جائے گا۔
مولانا وحید الدین خان کے مطابق انبیاء کی بعثت کا مقصد بادشاہت کی دعوت دینا نہیں ہوتا تھا۔ بلکہ بعثت انبیاء کا مقصد لوگوں کو اللہ کے نزدیک کرنا اور آخرت کی یاد دلانا ہوتا تھا۔ اور اگر لوگ خدا کی بتائی ہوئی راہ پر چلیں تو امید ہے کہ اللہ ان کو زمین پر اقتدار کی دولت سے بھی نواز دے مگر یہ وعدہ ہے جو اعمال صالحہ کا نتیجہ ہوگا نہ کے دین کا تقاضا یہ ہے کہ اقتدار حاصل کیا جائے۔
اس زمن میں ایک واقعہ وہ اپنی کتاب قال اللہ و قال رسول میں نقل کرتے ہیں۔
“ایک مسلمان کیمونسٹ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے سب سے بڑے اشتراکی تهے- ان کے نزدیک پیغمبر اسلام کا مشن یہ تها کہ دنیا سے معاشی استحصال کا خاتمہ کریں- اور زمین پر معاشی انصاف کا نظام قائم کریں- اپنے نقطہ نظر کو ثابت کرنے کے لئے ان کو قرآن کے بہت سے حوالے مل گئے ………… زمین اللہ کی ہے (اعراف 128) دولت کا اجتماع ہلاکت کا باعث ہے (الہمزه 2) ضرورت سے زیاده مال رکهنے کا کسی کو حق نہیں (البقره 219) سرمایہ دارانہ سماج پر خدا اپنا عذاب نازل کرتا ہے (الاسراء 16) دولت صرف سرمایہ دار طبقہ میں نہیں رہنا چاہئے (الحشر 7) خدا کا مطلوب سماج وه ہے جس میں ایک طبقہ کے لئے دوسرے طبقہ کو لوٹنے کا موقع نہ هو (هود 74) دولت کے زور پر جو لوگ دوسروں کا استحصال کرتے ہیں ان سے جنگ کرو (البقره 279) –
مزکوره کمیونسٹ اپنے نقطہ نظر کے حق میں اس طرح کے قرآنی دلائل پیش کرتے رہے- آخر میں، میں نے کہا کہ پیغمبر کا مشن اگر وہی ہے جو آپ نے بیان فرمایا تو قرآن میں ایسی کوئی آیت هونی چاہئے جس کا مفہوم یہ هو کہ ” اے پیغمبر هم نے تم کو اس لئے بهیجا ہے تاکہ تم دنیا سے معاشی لوٹ کو ختم کرو اور زمین پر معاشی انصاف کا نظام قائم کرو “- اگر آپ اپنے دعوے میں برحق ہیں تو قرآن سے ایسی کوئی آیت نکال کر دکهایئے- موصوف نے مزکوره بالا قسم کے معاشی حوالے تو بہت دئے مگر وه ایسی آیت پیش نہ کر سکے جس کے الفاظ سے براه راست طور پر یہ نکلتا هو کہ پیغمبر کا مشن دنیا میں معاشی انقلاب برپا کرنا ہے-
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن میں بہت سی معاشی آیتیں ہیں- مگر یہ بهی حقیقت ہے کہ قرآن میں کوئی ایک بهی ایسی آیت نہیں جس کے عبارت النص سے مزکوره بالا قسم کا معاشی نصب العین نکلتا هو- یہ فرق ثابت کرتا ہے کہ معاشی احکام اگر چہ قرآن میں موجود ہیں مگر معاشی احکام کا نفاذ ہی وه چیز نہیں جو پیغمبر خدا کا اصل نصب العین هو- معاشی احکام کی اہمیت کسی اور پہلو سے ہے نہ کہ نصب العین کے پہلو سے-
یہی معاملہ سیاسی احکام کا ہے- قرآن میں یقینا سیاسی نوعیت کے احکام بهی ہیں- مگر ان احکام کی بنیاد پر ایک نظام قائم کرنا ہی وه اصل نصب العین نہیں جس کے لئے پیغمبر کی بعثت هوئی هو- یہی وجہ ہے کہ قرآن میں ایسی آیتیں تو ملتی ہیں جن میں سیاسی پہلو بهی شامل هو- مگر سارے قرآن میں ایسی کوئی ایک آیت نہیں جس کا مفہوم یہ هو کہ ” اے ہیغمبر تمہارا نصب العین یہ ہے کہ تم قرآنی احکام کی بنیاد پر ایک مکمل سیاسی نظام قائم کرو- قرآن معاشی نصب العین کی آیت سے بهی خالی ہے اور سیاسی نصب العین کہ آیت سے بهی-
(قال اللہ و قال الرسول)
(جاری)
ابو جون رضا