اقامت دین اور جہادی بیانیہ ۔ ایک جائزہ (5)

سید قطب

مصر سے تعلق رکھنے والے سید قطب بھی مشہور و معروف اسلامک اسکالر گزرے ہیں۔ ان کا اور مولانا مودودی کا زمانہ ایک ہی ہے۔ یہ بھی مولانا مودودی کے افکار سے متاثر تھے۔ یہاں تک ان کی آخری کتاب معالم فی الطریق کے دیباچے میں یہ بات نقل کی گئی ہے کہ ان سے عدالت میں پوچھا گیا کہ کیا آپ نے مولانا مودودی کی تصنیفات سے استفاذہ کیا ہے تو انہوں نے اثبات میں جواب دیا اور پھر ان سے پوچھا گیا کہ آپ کی دعوت اور مولانا مودودی کی دعوت میں کیا فرق ہے تو سید قطب نے جواب دیا کہ ” کوئی فرق نہیں”

سید قطب نے اپنی کتابوں میں جاہلیت اور حاکمیت کی جو اصطلاحیں استعمال کی ہیں وہ مولانا مودودی کی ہی فکر کا نتیجہ محسوس ہوتی ہیں۔

ان کی آخری کتاب معالم فی الطریق کو بنیاد بنا کر سید قطب کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔

سید قطب بھی اپنی تحریروں میں اسلامی نظام کے نفاذ کی بات کرتے ہیں۔

وہ لکھتے ہیں۔

” یہ بات ہم پورے دعوے سے کہتے ہیں کہ ہم ایک ایسے نظام حیات کے داعی ہیں جو نہایت درجہ کامل اور ہر لحاظ سے منفرد و ممتاز ہے۔ پوری نوع انسانی ایسے گنج گراں مایہ سے خالی ہے۔ دیگر مادی مصنوعات کی طرح وہ اسے پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتی۔ لیکن جیسا کہ ہم نے اوپر عرض کیا ہے ، اس نظام نو کی خوبصورتی اس وقت تک نمایاں نہیں ہوسکتی جب تک اسے عمل کے قالب میں نہ ڈھالا جائے گا۔ پس یہ ضروری ہے کہ ایک امت عملا اپنی زندگی اس کے مطابق استوار کر کے دکھائے۔ اس مقصد کو بروئے کار لانے کے لیے ضروری ہے کہ کسی اسلامی ملک میں احیائے دین کی مہم کی طرح ڈالی جائے۔

احیائے نو کی یہی وہ ناگزیر کوشش ہے جو طویل یا مختصر مسافت کے بعد بالآخر انسانی امامت و قیادت کے قبضہ پر منتہج ہوگی”

(معالم فی الطریق صفحہ۔ 55-56)

سید قطب ان افکار پر تنقید کرتے تھے جو جہاد کو مدافعانہ عمل قرار دیتے تھے اور ان کو غلط تاویل قرار دیتے تھے اور اس بات پر زور دیتے تھے کہ دین کا نصب العین ہے کہ وہ روئے زمین سے طاغوتی قوتوں کو مٹا دے۔ اور برسر اقتدار تمام سیاسی نظاموں کو مٹا کر یا ان کو زیر نگیں یا جزیہ پر مجبور کر کے لوگوں کو آزادی دے تاکہ وہ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے عقیدے کا انتخاب کریں۔

وہ لکھتے ہیں۔

” دنیا کے اندر اللہ تعالی کی الوہیت کا سکہ رواں کرنا، انسانی زندگی میں اللہ کے بھیجے ہوئے نظام حق کو قائم کرنا، تمام شیطانی نظام ہائے حیات کا قلع قمع کرنا، انسان کی آقائی ختم کرنا جو انسان کو اپنی غلامی کی زنجیروں میں جکڑتی ہے حالانکہ انسان صرف اللہ کے غلام ہیں اور سوائے اس کے کسی غلام کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ انسانوں کو اپنے خود ساختہ اقتدار کا تابع بنائے اور ان پر اپنی اھواء و اغراض کی شریعت نافذ کرے ۔ یہی وجوہ محرکات جہاد قائم کرنے کے لیے کافی ہیں”

( معالم فی الطریق صفحہ 148)

(جاری)

ابو جون رضا

2

1 thought on “اقامت دین اور جہادی بیانیہ ۔ ایک جائزہ (5)”

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *