علمیت کا تکبر اور ریاکاری

کہتے ہیں کہ اہل علم میں حسد کی بہت مانگ ہے۔ میں نے بہت کم اہل علم دیکھے ہیں جن کے اندر تکبر نہ ہو اور عاجزی کا عنصر پایا جاتا ہو۔

میں سمجھتا ہوں جب تک انسان طالب علم رہتا ہے اور ہر کسی سے سیکھنے کی تمنا اس کے دل میں ہوتی ہے تب تک وہ علم سمیٹتا رہتا ہے۔ جہاں اس نے یہ سمجھ لیا کہ اب ہر معاملے میں اس کی رائے حتمی یے۔ وہ ہمیشہ منطقی گفتگو ہی کرتا ہے اور علم کا بحر بے کنار ہے۔ تب سے وہ علم کے سمندر کے بجائے تکبر کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے اور اس کو پتا بھی نہیں چلتا۔ وہ اختلاف کو پھر پسند نہیں کرتا۔ ایک طرح کی رعونت اس کے لہجے اور نشست و برخاست میں آجاتی ہے۔

یہ معاملہ دین کے مبلغوں کے ساتھ سب سے زیادہ ہوتا ہے۔ ان کے کچھ پیمانے بنے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی اس پر پورا اتر گیا تو ٹھیک ورنہ جاہل، احمق ، ان پڑھ ، بھٹکا ہوا جیسے خطاب وہ جیب میں لیے گھومتے ہیں اور اس کو دوسروں پر چسپاں کرنے میں زرا دیر نہیں لگاتے۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر معاملہ دین کا ہے اور وہ کوئی کام خالص اللہ کے لیے انجام دے رہے ہیں تو علمی طور پر نیچا دکھا کر اور ذلیل کر کے یا کسی کا مذاق اڑا کر کیسے کسی کو اپنی درست بات کے لئے بھی قائل کر سکتے ہیں؟

مجھے بہلول دانا کا ایک واقعہ بہت پسند ہے کہ ایک دفعہ خلیفہ کوئی مسجد تعمیر کروا رہا تھا ۔ بہلول نے اس کے صدر دروازے پر لکھ دیا ۔ “مسجد بہلول” خلیفہ کو پتا چلا تو اس نے بلا کر پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی؟ یہ مسجد تو میں تعمیر کروا رہا ہوں ، تم نے اپنا نام کیسے لکھ دیا؟ بہلول نے کہا کہ مسجد اگر اللہ کے لیے بنوا رہے ہو تو نام کسی کا بھی لکھا ہو تمہیں پریشانی نہیں ہونی چاہیے کیونکہ اللہ جانتا ہے کہ مسجد کس نے تعمیر کروائی ہے۔ ہاں اگر بندوں کے لیے بنوا رہے ہو کہ وہ تمہاری تعریف کریں تو میں اپنا نام مٹا دیتا ہوں۔

یہ بہت بڑی بات ہے کہ انسان اپنے نفس کو اس حد تک مار لے کہ دینی یا تبلیغی معاملات میں تعریف کو پسند نہ کرے، اختلاف کو سراہے اور تکبر اور ریاکاری سے ممکنہ حد تک اجتناب کرے۔

ایک ہی شخصیت ایسی ہے جس سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا اور وہ نبی کریم کی ذات مبارکہ ہے باقی دنیا میں ہر کسی سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم سیرت کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ وہ خود ساری زندگی اختلاف جھیلتے رہے اور خندہ پیشانی سے اپنی بات پہنچاتے رہے۔

“(اے پیغمبرؐ) یہ اللہ کی بڑی رحمت ہے کہ تم اِن لوگوں کے لیے بہت نرم مزاج واقع ہوئے ہو ورنہ اگر کہیں تم تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ سب تمہارے گردو پیش سے چھٹ جاتے اِن کے قصور معاف کر دو، اِن کے حق میں دعا ئے مغفرت کرو، اور دین کے کام میں ان کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو، اللہ کو وہ لوگ پسند ہیں جو اُسی کے بھروسے پر کام کرتے ہیں”

(سورہ آل عمران آیت 159)

میں دعا گو ہوں کہ پروردگار مجھے ساری زندگی طالب علم رکھنا اور میں اپنے ہر تکبر اور ریاکاری پر تجھ سے معافی کا طلبگار ہوں

“یقین جانو، جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا ہے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی کی ہے ان کے لیے آسمان کے دروازے ہرگز نہ کھولے جائیں گے اُن کا جنت میں جانا اتنا ہی ناممکن ہے جتنا سوئی کے ناکے سے اونٹ کا گزرنا مجرموں کو ہمارے ہاں ایسا ہی بدلہ ملا کرتا ہے”

(سورہ اعراف آیت 40)

وما توفیقی الا باللہ علیہ توکلت و الیہ انیب

ابو جون رضا

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *