اقامت دین کے حوالے سے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک اور نامور اسکالر جناب غلام احمد پرویز صاحب کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ مولانا مودودی کے ہم عصر رہے ہیں۔ ہمیشہ اسلامی نظام کی بات کرتے تھے اور اس کے نفاذ کے لیے کوشاں رہے۔ ان کا بیانیہ بھی ساری عمر اسلامی نظام کے گرد ہی گھومتا رہا۔
یہ لکھتے ہیں
” مرد مومن انسانی غلامی ( طاغوتی نظام ) کی نامساعد فضا میں سانس نہیں لے سکتا، خواہ اس میں دنیاوی معیار و میزان کی رو سے کتنا ہی امن کیوں نہ ہو۔ اس کے نزدیک امن و فساد کی تعریف ہی اور ہے۔ اگر کوئی حکومت اپنی قوت کے زور سے قزاقی اور راہزنی ، لوٹ و غارت گری کو دبا دیتی ہے اور لوگ حفاظت سے اپنے اپنے گھروں میں رہ سکتے ہیں اور بے خوف و خطر ادھر سے ادھر سفر کرسکتے ہیں تو اسے پرامن حکومت کہا جائے گا۔ جس کے عہد زریں میں کہیں فتنہ و فساد دکھائی نہیں دے گا۔ قران بیشک اس قسم کی بدامنی کا استیصال چاہتا ہے۔ لیکن اس کے نزدیک بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ۔اس سے بھی آگے جاتی ہے۔
اس کے نزدیک حقیقی امن و سلامتی یہ ہے کہ محکومیت صرف خدا کے لئے ہو جس میں انسانوں کو اس زندگی اور اس کے بعد کی زندگی دونوں میں فلاح نصیب ہو۔ اس کے نزدیک یہی نظام مملکت حق ہے۔ اس کے سوا تمام نظامات باطل ( طاغوتی ) ہیں اور جب حق باطل کے تابع ہوجائے ( یعنی نظام مملکت غیر اللہ کا ہو) تو اس کا نام فساد ہے۔ خوا اس میں بظاہر کیسا ہی امن کیوں نہ ہو۔
پھر وہ قران کی سورہ النساء آیت 76 سے استدلال کرتے ہیں
” جو لوگ ایمان رکھتے ہیں تو ان کا لڑنا اللہ کے لئے ہوتا ہے ( کیونکہ وہ حکومت خداوندی کے قیام کی خاطر لڑتے ہیں) اور جن لوگوں نے انکار کی راہ اختیار کی وہ طاغوت کی راہ میں لڑتے ہیں (یعنی غیر خدائی نظام کے قیام کی خاطر) سو ( اگر تم ایمان رکھتے ہو تو چاہیے کہ) شیطان کے حمایتیوں سے لڑو ( اور ان کی طاقت و کثرت کی پروا نہ کرو) شیطانی مکر ( دیکھنے میں کتنا ہی مظبوط کیوں نہ ہو لیکن حق کے مقابلے میں) کبھی جمنے والا نہیں”
(جہاد کا صحیح مفہوم قران کریم کی روشنی میں 40 -41)
(جاری)