قَاتِلُوا الذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللہ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرمُونَ مَا حَرمَ اللہ وَرَسُولُہ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَق مِنَ الذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتی يُعْطُوا الْجِزْيَۃ عَن يَدٍ وَھمْ صَاغِرُونَ (سورۃ توبہ،آیت ٢٩)
لڑو ان اہلِ کتاب سے جو نہ اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان لاتے، نہ اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام ٹھہرایا ہے، اسے حرام ٹھہراتے اور نہ دینِ حق کی پیروی کرتے ہیں۔ ان سے لڑو، یہاں تک کہ وہ مغلوب ہوکر جزیہ ادا کریں اور زیرِ دست بن کر رہیں۔
اس آیت کو اسکالر جہاد کے زمرے میں پیش کرتے ہیں۔ اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ جہاد قیامت تک جاری رہے گا اور شاید دنیا میں دین اس وقت تک غالب نہ آئے گا جب تک جہاد نہ کیا جائے۔ لیکن یہ بھی امکان ظاہر کیا جاتا ہے کہ ایسا قرب قیامت ہی ہوگا۔
مودودی صاحب سے مشابہ سوچ رکھنے والے اسکالرز دنیا میں قائم کسی اسلامی حکومت کو مکمل اسلامی نہیں مانتے۔ ان کے خیال میں منہاج نبوت سے ہر حکومت ہٹی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے ہر مسلمان پر فرض ہے کہ وہ اسلام کو نافذ کرنے کے لیے جدو جہد کرے۔
غامدی صاحب بھی مولانا مودودی کے تلامذہ میں شامل رہے ہیں۔ اور ان کی بعض آرا مولانا مودودی سے ملتی جلتی ہیں حالانکہ اب وہ بہت سے معاملات میں ان سے اختلاف کرتے ہیں۔
سورہ توبہ کی آیت 29 کو انہوں نے بھی اپنی رائے کی تائید میں ایک جگہ نقل کیا ہے۔
آپ لکھتے ہیں
” نبیﷺ کے بعد اب ہمارے لیے اس شہادت کا طریقہ یہ ہے کہ اہلِ ایمان پہلے اپنی ریاست میں ایک نظامِ حق عملا قائم کریں تاکہ اس کے ذریعے سے یہ حقیقت دنیا کی ہر قوم پر واضح ہوجائے کہ اسلام کیا ہے اور وہ بنی آدم سے ان کی انفرادی ور اجتماعی زندگی میں کن باتوں کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے عقائد و اعمال اور اس کی معاشرت و سیاست ہر چیز اس طرح لوگوں کے سامنے آجائے کہ وہ اسے آنکھوں سے دیکھ کر یہ معلوم کرلیں کہ اسلام کا باطن و ظاہر کیا ہے اور اسے یہ حق کیوں حاصل ہے کہ صرف وہی اس زمین پر دینِ حق قرار پائے۔ اس شہادت کے بعد اگر اہلِ کفر اس دین کو ماننے یا کم سے کم اس کی سیاسی بالادستی قبول کرلینے کے لیے تیار نہ ہوں تو حکم ہے کہ اہلِ ایمان اگر طاقت رکھتے ہوں تو ان کے خلاف جہاد کریں”
پھر آپ سورہ توبہ کی ایت 29 جو میں نے نقل کی اس کو پیش کرتے ہیں
(جاوید احمد غامدی ” حقیقتِ دین” ”مشمولہ اشراق، اکتوبر ١٩٨٨)
“تم ان سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین اللہ کے لیے ہو جائے پھر اگر وہ باز آ جائیں، تو سمجھ لو کہ ظالموں کے سوا اور کسی پر دست درازی روا نہیں”
(سورہ بقرہ ایت 193 ترجمہ مولانا مودودی تفہیم القرآن)
مولانا مودودی کے نزدیک فتنہ ایک وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور اس کا استیصال تلوار کے سوا ممکن نہیں ہے۔ ان کے نزدیک فعل و عمل کی برائی بھی فتنہ میں داخل ہے۔ الجہاد فی الاسلام میں لکھتے ہیں
“فعل و عمل کی برائی کو طاقت و قوت کے زور سے روکنے کا حکم دیا۔ چانچہ اوپر وہ حدیث گزرچکی ہے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ولتَأْخُذُنَّ عَلَی يَدِ الظَّالِمِ، ولَتَأْطرُنَّہُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا ”َ۔ تم پر لازم ہے کہ بدکار کا ہاتھ پکڑ لو اور اس کو حق کی طرف موڑ دو۔ اس کے علاوہ اور بہت سی احادیث ہیں جن میں منکر کو روکنے کے لیے قوت کے استعمال کا حکم ہے۔”
مولانا مودودی کے نزدیک عبادات بھی دراصل ایک ٹریننگ کا درجہ رکھتی ہیں جن کے ذریعے سے انسان ایک بڑے مقصد کے لیے تیار ہوتا ہے اور وہ مقصد ایک الہی حکومت کا قیام ہے
خطبات میں فرماتے ہیں۔
“پچھلے خطبوں میں باربار میں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ یہ نماز روزہ اور حج اور زکاۃ جنھیں اللہ تعالیٰ نے آپ پر فرض کیا ہے، اور اسلام کا رکن قرار دیا ہے، یہ ساری چیزیں دوسرے مذہبوں کی عبادات کی طرح پوجا پاٹ اور نذر و نیاز اور جاترا کی رسمیں نہیں ہیں کہ بس آپ ان کو ادا کردیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے خوش ہوجائے۔ بلکہ دراصل یہ ایک بڑے مقصد کے لیے آپ کو تیار کرنے اور ایک بڑے کام کے لیے آپ کی تربیت کرنے کی خاطر فرض کی گئی ہیں۔
مختصر الفاظ میں تو صرف اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ وہ مقصد انسان پر سے انسان کی حکومت مٹاکر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنا ہے اور اس مقصد کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے اور جان توڑ کوشش کرنے کا نام جہاد ہے، اور نماز، روزہ، حج، زکواۃ سب کے سب اسی کام کی تیاری کے لیے ہیں۔”
(جاری)