برصغیر میں دنیا کے چند ایسے دماغ پیدا ہوئے جن کی سوچ نے ایک عالم کو متاثر کیا جس کے اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی گوناگوں صلاحیتوں، تقریروں اور تحریروں سے دنیا بھر میں لوگوں کے دلوں میں اپنے بیانیہ کے لئے جگہ بناتے تھے۔
ان کے بیانیہ کا بنیادی مقصد اقامت دین تھا۔ اس کو وہ کس طرح پیش کرتے تھے اور ان کی فکر کے خوشہ چینوں میں کیسے کیسے نابغہ لوگ شامل رہے ۔ اس کا ایک مختصر جائزہ میں آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ پھر ان کی فکر کے مخالف افراد کے بارے میں مختصرا زکر کروں گا اور ان کی تنقید کا بھی احوال لکھوں گا۔ مقصد جہاد کو پروموٹ کرنا نہیں ہے بلکہ یہ بتانا ہے کہ سالوں سے ایک بیانیہ کیسے اعلی دماغوں کو متاثر کرتا گیا۔
تحریر کے بارے کوشش ہے کہ مختصر لکھی جائے لیکن یہ پھر بھی کئی اقساط پر مشتمل ہوگی۔ امید ہے کہ احباب طوالت سے صرف نظر کرتے ہوئے تحریر کا مطالعہ ضرور کریں گے۔ آغاز میں مولانا مودودی سے کروں گا ۔ جن کے جہادی بیانیہ کا اثر ایک عالم پر تھا۔ اور ان کو بجا طور پر جہادی بیانیہ کر باوا آدام قرار دیا جاسکتا ہے۔
“مولانا مودودی اور اسلامی انقلاب”
مولانا کی اسلامی انقلاب کی تحریک بیسوی صدی کے نصف اول میں شروع ہوئی اور صدی کے آخر تک پورے بر صغیر ہند میں پھیل گئی تھی۔
مولانا مودودی اپنی کتاب اسلامی ریاست میں لکھتے ہیں
“اسلام دنیا میں جو اصلاح چاہتا ہے وہ صرف وعظ وتذکیر سے نہیں ہو سکتی بلکہ اس کو عمل میں لانے کے لئے سیاسی طاقت بھی درکار ہے۔ پھر جب کہ یہ دعا ا للہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی کو سکھائی ہے تو اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اقامت دین اور نفاذ شریعت اور اجرائے حدود اللہ کے لئے حکومت چاہنا اور اس کے حصول کی کوشش کرنا نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ومندوب ہے اور وہ لوگ غلطی پر ہیں جو اسے دنیا پرستی یا دنیا طلبی سے تعبیر کرتے ہیں‘‘۔
مولانا مودودی نے الجہاد فی السلام کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی۔ لیکن اس کو ان کی اولین تحریروں میں سے ایک کہا جاسکتا ہے۔
مولانا مودودی نے “الجہاد فی الاسلام” میں ”اشاعتِ اسلام ور تلوار” کے عنوان سے ایک باب باندھا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کو صرف دو صورتوں میں قتل کیا گیا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اس نے کسی دوسرے انسان کو ناحق قتل کیا ہو، اور دوسرے یہ کہ اس نے زمین میں فساد پھیلایا ہو۔ فتنہ مولانا نے ہاں بہت وسیع مفہوم رکھتا ہے جس کا اصل سرچشمہ کافر حکومتیں ہیں۔ ان کے خیال میں کفر کی شان و شوکت مسلمانوں کے افکار پر برا اثر ڈالتی ہے اور وہ مرعوب ہوجاتے ہیں تو جہاد کے زریعے سے کفر کی شان و شوکت کو توڑا جائے۔ کم و بیش یہی خیال مفتی تقی عثمانی اور مولانا شبیر عثمانی کا بھی رہا ہے۔
مفتی تقی عثمانی تقریر ترمذی کی جلد دوئم میں جہاد کو بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں
” “سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر جہاد کا مقصد کیا ہے؟ خوب سمجھ لیں جہاد کا مقصد یہ ہے کہ کفر کی شوکت کو توڑا جائے اور اسلام کی شوکت قائم کی جائے اور اللہ کا کلمہ بلند کیا جائے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس بات کو تو برداشت کرلیں گے کہ اگر تم اسلام نہیں لاتے ٹھیک ہے اسلام قبول نہ کرو، تم جانو اور تمھارا اللہ جانے۔ آخرت میں تم سزا بھگتنا۔ لیکن تم اپنے کفر اور ظلم کے قوانین کو اللہ کی زمین پر نافذ کرو اور اللہ کے بندوں کو اپنا غلام بناؤ اور ان کو اپنے ظلم اور ستم کا نشانہ بناؤ اور ان پر ایسے قوانین نافذ کرو جو اللہ کے قوانین کے خلاف ہیں اور کن قوانین کے ذریعہ فساد پھیلتا ہے۔ تو اس کی ہم تمہیں اجازت نہیں دیں گے۔ لہذا یا تو تم اسلام لے آؤ اور اگر اسلام نہیں لاتے تو پھر اپنے دین پر رہو لیکن جزیہ ادا کرو۔ اور یہ جزیہ ادا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری اور ہمارے قانون کی بالادستی تسلیم کرو۔ اس لیے جو قانون تم نے جاری کیا ہوا ہے وہ بندوں کو بندوں کا غلام بنانے والا قانون ہے۔ ہم ایسے قانون کو جاری نہیں رہنے دیں گے۔ اللہ کی زمین پر اللہ کا قانون نافذ ہوگا اور اللہ ہی کا کلمہ بلند ہوگا۔ یہ ہے جہاد کا مقصود۔”
(جاری)
Mashllah
برادر محترم آپکی کاوش بہت اچھی ہے اور آپ نے جو موضوع چنا ہے وہ بھی بہت دلچسپ اور اہم ہے میں آپکی تحاریر بھی پڑھتا رہوں گا اور اس پر اپنی ناقص عقل کا استعمال کر کے آراء بھی دیتا رہوں گا۔
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو سلامت رکھے آمین
Allah Pak apky ilm Mai izafa kery apko sehat o salamati aata kery aur ap Yun hi hmare ilm Mai izafa kerty rahein Elahi Ameen