مولا علی فرماتے ہیں۔
اگر خداوند عالم تکبر کی کسی کو اجازت دیتا تو اس کے لئے اس کے خاصانِ خاص موجود تھے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا بلکہ اس کے قرب کو بھی سخت ناپسند گردانا اور تواضع و انکساری کو پسندیدہ قرار دیا ہے۔
( شرح ابن الحدید جلد ۱۳ صفحہ ۱۵۱ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲)
ایک غور طلب بات یہ ہے کہ حسد ، تکبر اور خود پسندی یہ باطنی بیماریاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ حاسد جب کسی کو اونچا دیکھتا ہے یا خود سے بہتر پاتا ہے تو دل ہی دل میں کڑھتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ دوسرے کا اونچا مقام ختم ہوجائے یا وہ کسی طرح سے کمتر ثابت ہوجائے۔ کیونکہ وہ اندرونی طور پر خود کو زیادہ بہتر سمجھتا ہے۔
“یہ خود اپنی جگہ گناہ ہے کہ انسان اپنے نفس میں یہ آرزو کرے کہ کسی اور کے پاس جو نعمت ہو وہ ختم ہو جائے ، کوئی اچھا ڈاکٹر ہے ، یا کسی کا حافظہ بہت اچھا ہے ، دوسرا اپنے نفس میں یہ آرزو کرے کہ کب اس کا حافظہ زائل ہو گا ؟ کوئی اچھا خطیب ہے ، بہت اچھی تقریر کرتاہے ، تو دوسرا خطیب اپنے نفس کے اندر یہی آرزو کرتا ہے کہ کب اس کی زبان بند ہو جائے ، کب ہو گا کہ یہ بات بھی نہ کر سکے ؟
یہ چیز جب تک نفس کے اندر ہے وہ بھی گناہ ہے اگرچہ افعال کے ذریعہ ظاہر بھی نہ ہو ، اور اگر اظہار ہو جائے تو اس شخص کی عدالت بھی ختم ہو جاتی ہے”
( صاحب جواہر ، جواہر الکلام جلد 41 صفحہ 52)
ایک عجیب بات یے کہ حسد کا اعلی ترین درجہ علماء میں پایا جاتا ہے۔ کسی کی خطابت اچھی ہے ، کوئی لکھتا بہت اچھا ہے،کوئی کسی بڑی مسجد کا امام ہے اس لیے لوگ اس کی بات زیادہ سنتے ہیں ، کسی عالم کو لوگ پسند زیادہ کرتے ہیں۔ کسی کا علم زیادہ ہے وغیرہ ان باتوں کو لیکر اہل علم میں حسد کا عنصر اندر ہی اندر پنپتا رہتا ہے۔ علماء حق اس طرف متوجہ رہتے تھے۔ اور اس مرض سے بچنے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔
حسد سے دل اگر افسردہ ہے گرم تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرت نظارہ سے وا ہو
شیخ مرتضی انصاری جو اہل تشیع کے مایہ ناز فقہاء میں شمار کیے جاتے ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ صاحب جواہر نے اپنی زندگی میں ان کو اپنے بعد مرجع اور جانشین نامزد کیا تھا ۔ ان کے انتقال کے بعد باوجود کہ صاحب جواہر نے انہیں اپنا جانشین مقرر کیا تھا اور باقی تمام فقہاء نے بھی آپ کی مرجعیت کو قبول کی تھی۔ خود شیخ انصاری نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا سعید العلماء مازندرانی جو اس وقت مازندران میں ہیں مجھ سے اعلم ہیں۔
اس بنا پر انہوں نے سعید العلما کیلئے ایک خط لکها جس میں اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ جب ہم دونوں شریف العلما کی کلاس میں جاتے تھے تو اس وقت ان کے دروس کو مجھ سے زیادہ آپ سمجھتے تھے لہذا آپ کو مرجعیت کے منصب کو قبول کرنا چاہئے۔ سعید العلما نے جواب میں لکھا کہ اگرچہ اس وقت میری ذہانت آپ سے زیادہ تھی لیکن اب میں کافی عرصے سے علمی بحث و مباحثوں سے دور ہوں جبکہ آپ علمی میدان میں تحقیق اور بحث و مباحثے میں مشغول ہیں لہذا اس منصب کیلئے مجھ سے زیادہ آپ مناسب ہیں۔ ان کے اس جواب کے بعد شیخ انصاری قانع ہو جاتے ہیں اور مرجعیت کو قبول کرتے ہیں۔
(اعیان الشیعۃ، ص۴۵۶ ـ ۴۵۵)
یہ بہت بڑی بات ہے۔ اور ایسا کام وہی شخص انجام دے سکتا ہے جس کا دل خود پسندی ، حسد و تکبر سے خالی ہو۔
بغض و حسد سے دل خالی رکھیے
اپنے کردار کو مثالی رکھیے
جو داد کے قابل ہو اسے دیجئے داد
دشمن ہی سہی ظرف تو اعلی رکھیے
آج رمضان کی انیسویں ہے۔ دعا ہے کہ پروردگار مجھے تکبر ، خود پسندی اور حسد سے محفوظ فرما۔ اور میرے کبیرہ و صغیرہ گناہوں کو معاف فرما۔
ابو جون رضا
Good